دشمن بھی دیکھ کے جس کو غمناک ہوگئے
زندگی کے کئی چہرے ہوتے ہیں جنہیں انسان دیکھتا ہے اور دیکھ کر بھول جاتا ہے، لیکن کبھی کبھی کوئی چہرہ ایسا بھی ہوتا ہے جس کو دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے۔ ان دنوں ایک ایسا ہی چہرہ میرے احساسات کے تعاقب میں ہے۔ یہ چہرہ ایلان عبداللہ کا ہے جس کی عمر صرف دو سال تھی مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اس کی نعش ترکی کے ساحل پر ہزاروں سال سے پڑی ہے اور سمندر کے آنسوؤں سے شرابور ہے۔
یہ صرف ایک نعش نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے بدنما چہرے کا عکس ہے، انسانیت کا راگ الاپ کر دنیا کو جنگوں میں جھونکنے والے مغربی ممالک کے منہ پر طمانچہ ہے، مگر اس سے بڑا طمانچہ یہ مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک کے لیے ہے جن کی دولت کا اثر ان کے اپنے معدے تک رہتا ہے، ان کے ہاں دولت کی ریل پیل انسان کی روح تک سرایت نہیں کر پاتی، ان کی دولت سے قربانی کے چراغ روشن نہیں ہوتے بلکہ صرف مفادات کی آگ بھڑکتی ہے۔ تیل خریدنے اور تیل فروخت کرنے والوں کے درمیان انسانیت کچلی جارہی ہے، ترکی کے ساحل پر ان دونوں کی خباثت زمین بوس ہے۔
پڑھیے: دنیا کو دہلا دینے والا شامی بچہ سپردخاک
زندگی درد کا سفر ہے لیکن ایسا درد جس میں کوئی چیخ نہ گونجے، کوئی فریاد نہ کی جائے، کوئی آہ و بکا نہ ہو، وہ درد مزید درد میں تبدیل ہو کر ضمیر کا بوجھ بن جاتا ہے، سوہانِ روح ہو جاتا ہے، زندگی کی آنکھوں میں اذیت کی بے خوابی پیدا کر دیتا ہے، لیکن تاجر اور تجارت پسند طبقے کو اس سے کیا، حکومتوں کا ان احساسات سے کیا تعلق، ترکی کے ساحل پر ان احساسات کی لاش بے گور و کفن پڑی ہے۔
ہجرت انسانوں کی زندگی میں کوئی نیا تجربہ نہیں۔ ہر دور میں لوگوں نے ہجرت کی، ہم پاکستانیوں سے زیادہ ہجرت کے مصائب سے کون واقف ہے۔ قیام پاکستان کی بنیاد میں ہجرت کا خون پڑا ہے، آج تک ان راستوں پر خون کے دھبے اس شب خون کی گواہی دیتے ہیں۔ بھارت ہو چاہے بنگلہ دیش، پاکستان ہو یا افغانستان اور اب چاہے عراق، شام، ترکی ہو یا یورپ کے ممالک، ان سب نے اپنے اپنے حصے کے دکھ سہے ہیں، مگر اس کے باوجود ساری دنیا کی بینائی ترکی کے ساحل پر اپنا وجود کھو چکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کا تماشا اب ختم ہونا چاہیے اور طے کر لیں کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم، تاکہ کچھ تو فیصلہ ہوسکے کہ کون انسان ہے اور کون درندہ۔ عالمی سیاست کے مہروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ تیل کے ذخائر بھی ایک دن ختم ہوجائیں گے۔ مگر شاید ہوس کا یہ دھندا ختم ہونے کو نہیں آئے گا بلکہ یہ حرص پھر کسی اور چہرے کے ساتھ نمودار ہوجائے گی۔ عہد حاضر میں اس معاشی ہوس کا زندہ منظر ترکی کے ساحل پر ابھر آیا ہے مگر کس کی مجال ہے، جو اپنے گریبان میں جھانکے۔
قیام پاکستان پر انسان بھیڑیے بنے تو امرتا پریتم اور سعادت حسن منٹو نے لہو میں ڈبو کر حروف تخلیق کیے۔ افغانستان پر شب خون مارا گیا تو خالد حسینی نے درد کا نوحہ لکھا۔ فلسطین کی ظالم روایتوں پر محمود درویش فریاد کناں ہوا۔ جاپان پر ایٹمی حملے کے بعد مسوجی ایبوسے نے آگ کی بارش میں اپنی روح کو راکھ کر کردار تخلیق کیے۔ کربلا کے صبر سے بھلا کون واقف نہیں، انیس و دبیر کے درد و الم سے کون شناسا نہیں۔
مزید پڑھیے: ساحل پہ کھڑے ہو، تمہیں کیا غم!
ترکی کے ساحل پر مردہ حالت میں ملنے والے بچے کے والد ”عبداللہ کردی“ کو اب پوری دنیا پناہ دینے کو تیار ہے مگر وہ اب صرف اپنے آبائی علاقے میں جان دینا اور دفن ہونا چاہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ترکی کے ساحل پر اس معصوم بچے کی نعش کی صورت میں وہ پہلے ہی مرچکا اور صرف اب اس کا دفن ہونا باقی ہے۔ اس کی زندگی اب صرف سانسوں کا نوحہ ہے۔ یہ سانحہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبرداروں پر اجتماعی تف ہے۔ اس جھوٹی دنیا میں خود غرض انسانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے، یہ وہی دنیا ہے جس کے لیے جوش ملیح آبادی نے کہا تھا ”کفن میں جیب نہیں ہوتی“ اور ظلم کے حد سے بڑھ جانے پر افتخار عارف کے قلم سے یہ شعر نکلا:
حُسین تم نہیں رہے، تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
ایلان عبداللہ جیسے بچوں کی نعشیں کب تک سوالیہ نشانوں میں تبدیل ہوتی رہیں گی، کب انسانیت سب مفادات سے مقدم ہوگی، کب تیل سے زیادہ خون مہنگا ہوگا، ایسے بہت سارے سوالات ترکی کے ساحل پر بکھرے ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو ان کو چن کر جواب دے؟ ورنہ خاموشی کے مقبرے میں ایلان کی سسکیاں کسی کو چین نہیں لینے دیں گی اور جون ایلیا کے بقول ”یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا“ کا نوحہ پڑھتے ہوئے زندگی گزرجائے گی۔ ترکی کے ساحل پر پڑی ایلان عبداللہ کی نعش انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے، اپنے ڈوبنے کا تماشہ دیکھنے والوں سے مخاطب ہے کہ
قتل ہو تو میرا سا موت ہو تو میری سی
میرے سوگواروں میں آج میرا قاتل ہے
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔