نقطہ نظر

وسیم اکرم سے معذرت کافی نہیں

اس طرح کے واقعات پر نرم رویہ اختیار کر کے ہم کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں؟

گذشتہ ماہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کی گاڑی پر ایک ٹریفک جھگڑے کے دوران ایک شخص نے فائرنگ کر دی، مگر خوش قسمتی سے وہ بال بال بچ گئے۔

خبر میں حالات کی واضح تصویر بالکل اسی ترتیب سے ہے جو وسیم اکرم کے مطابق پیش آئے — کس طرح اس شخص نے وسیم اکرم کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے بعد بھاگنے کی کوشش کی؛ جب باؤلنگ لیجنڈ نے پیچھا کرنے کی کوشش تو جھگڑا شروع ہوگیا؛ پھر اس شخص نے مجھ (وسیم اکرم) پر بندوق تانی مگر مجھے پہچاننے کے بعد زمین پر فائر کر کے منظر سے غائب ہوگیا۔

واقعے کے فوراً بعد دنیا بھر سے لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا اور جب یہ خبر آئی کہ وسیم اکرم محفوظ ہیں، تو قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ وسیم اکرم نے واقعے کو 'خوفناک' قرار دیتے ہوئے کہا کہ "میں اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی چاہتا ہوں۔"

پولیس کی مناسب کارروائی کی بناء پر واقعے کے ذمہ دار کا پتہ لگایا گیا ہے جو کہ ایک سابق فوجی افسر ہے۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مذکورہ شخص نے گرفتاری سے بچنے کے لیے وسیم اکرم کے نام ایک معافی نامہ تحریر کیا ہے۔ واقعے کو وہ صرف سڑک کا غصہ قرار دیتے ہوئے اپنے اقدام کا جواز پیش کرتے ہیں۔

اس معافی نامے پر کئی ردِ عمل دیکھنے میں آئے ہیں جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو حملہ آور کو غلط سمجھتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ وسیم اکرم معذرت قبول کر کے آگے بڑھ جائیں۔ ان کے نزدیک پاکستان، خصوصاً کراچی میں زندگی مشکل ہے اور ایک عام شہری کے لیے اس طرح کے خوفناک واقعات معمول کی بات ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں کچھ نقصان نہ ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور واقعے کو بھلا کر زندگی میں آگے بڑھنا چاہیے۔

دوسری جانب کچھ لوگوں نے بجا طور پر قانونی تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کے واقعے کے کئی مختلف نتائج ہو سکتے ہیں۔ معافی نامہ تحریر کرنے والے کے مطابق وہ سابق کرکٹر کی عزت کرتا ہے اور اس لیے واقعے پر نادم ہو کر معذرت طلب کرتا ہے۔ (ویسے صرف ایک گولی چلائی گئی تھی اور جان بوجھ کر اس کا رخ وسیم اکرم کی جانب سے ہٹا لیا گیا تھا۔) کیا اس کا مطلب ہے کہ اگر سابق کرکٹر کی جگہ کوئی عام آدمی ہوتا، تو اسے گولی چلانے پر کوئی ندامت نہ ہوتی؟

شہری عام ہوں یا خاص، قانون کی خوبصورتی اس میں ہے کہ یہ سب لوگوں پر بلا امتیاز لاگو ہو۔ وسیم اکرم نے بھلے ہی معذرت قبول کر لی ہو، مگر اس سے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کی ریاست کی ذمہ داری ختم نہیں ہوجاتی۔

شہریوں کے طور پر ہم سب ہی سڑکوں پر ہوتے جھگڑے دیکھ چکے ہیں جہاں پر کئی دفعہ ٹھنڈے دماغ والے افراد بھی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے کسی بھی جھگڑے میں اسلحہ نکال لینا کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارے معاشرے میں اسلحہ ویسے ہی زہر کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ یہاں پر اسلحہ عزت، فخر، طاقت، اور غصے کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کی ضرورت اور ان کے نقصانات پر بحث ایک طرف، ہمیں اتنی تو امید تھی کہ کم از کم ایک ریٹائرڈ میجر ہمارے جیسے نازک معاشرے میں اسلحے کا ذمہ دارانہ استعمال کرے گا۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ۔

اور اس طرح کے واقعات پر نرم رویہ اختیار کر کے ہم کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں؟ اس طرح کا ایک واقعہ مشہور شخصیات سمیت عام لوگوں کو حاصل تحفظ کا پول کھول سکتا ہے، جبکہ ملک کا اچھا تاثر پیش کرنے کی سالوں کی محنت پر پانی پھیر سکتا ہے۔ خاص طور پر تب جب ہم دوسرے ممالک کو یقین دلانا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کھیلنے کے لیے محفوظ ہے۔

ہم اس طرح کے حالات میں جی رہے ہیں۔ وسیم اکرم زندہ بچ گئے، اور ان سے معذرت بھی کر لی گئی۔ لیکن ہم عام لوگ کیا اس کی امید رکھ سکتے ہیں؟

انگلش میں پڑھیں.

سید راشد منیر

سید راشد منیر لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز سے فارغ التحصیل ہیں اور Erasmus Mundus اسکالر ہیں۔ وہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈگریاں رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔