شامی بچے کی دل لرزا دینے والی تصویر
ترکی کے ایک مشہور ساحلی تفریحی مقام پر بہہ کر آنے والے ایک چھوٹے بچے کے بے جان جسم نے ہر دیکھنے والی آنکھ کو اشکبار اور دلوں کو لرزا دیا ہے. یہ لاش انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر واقعی ایک طمانچہ ہے.
سرخ ٹی شرٹ اور نیلی نیکر پہنے ایلان کردی نامی بچہ ان 12 شامی پناہ گزینوں میں سے ایک ہے جنھوں نے یونان پہنچنے اور وہاں ایک بہتر زندگی کے حصول کے لیے سمندر میں موت کا سفر کیا اور کشتی ڈوب جانے کے باعث جان کی بازی ہار گئے.
ساحل پر اوندھے منہ پڑے اس معصوم سے بچے کی بے جان تصویر کے سوشل میڈیا پر چرچے ہیں اور ہزاروں افراد جنگ کے باعث دربدر ہونے والے ان پناہ گزینوں کی مشکلات پر متفق ہیں اور اس پر بات کر رہے ہیں، جبکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی 'انسانیت ساحل پر بہہ گئی' (KiyiyaVuranInsanlik) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ یہ تصویر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے، لیکن یہ بچہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔
ایک برطانوی اخبار نے اسے "انسانی تباہی کا چھوٹا شکار" کہا ہے جبکہ اٹلی کے ایک اخبار نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا ہے."دنیا کو خاموش کرانے کے لیے ایک تصویر".
برطانیہ کے اخبار دی انڈیپنڈنٹ نے سوال کیا ہے، کیا اس مردہ شامی بچے کی یہ غیر معمولی پر اثر تصاویر بھی پناہ گزینوں کے لیے یورپ کے رویے اور پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکتیں تو پھر کیا چیز اسے تبدیل کرے گی؟
ترکی کے ایک کوسٹ گارڈ کے مطابق بدھ کو ترکی کے ساحل بوڈرم سے یونان کے جزیرے کوس جانے والی دو کشتیاں ڈوب گئیں.
ایک ریسکیو اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے اس بچے کی شناخت ایلان کردی کے نام سے کی جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کی عمر 3 سال ہے.
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ایلان اور 4 مزید بچے، اُن 12 شامی مہاجرین میں شامل ہیں جو کشتی ڈوبنے کے باعث ہلاک ہوئے، دونوں کشتیوں میں سوار تقریباً 23 افراد میں سے صرف 9 مسافر محفوظ رہے، جن میں ایلان کردی کے والدہ عبداللہ کردی بھی شامل ہیں، جبکہ ایلان کا بڑا بھائی 5 سالہ گیلپ اور والدہ بھی اس حادثے میں جان کی بازی ہار چکی ہیں۔
یہ تمام مسافر شامی کرد تھے جنھوں نے گذشتہ برس اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے شدت پسندوں کی وجہ سے ترکی میں پناہ لی تھی.
ایک ریسکیو اہلکار نے بتایا کہ کشتی صبح 4 بجے کے قریب ڈوبی اور اس کے خیال میں حادثہ کشتی الٹنے کے باعث پیش آیا، " زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ لوگ خوفزدہ ہوگئے ہوں گے اور تیراکی نہیں جانتے ہوں گے"۔
ریسکیو اہلکار کے مطابق کشتی میں صرف 4 لوگوں کی گنجائش تھی، لیکن اس میں 15 مسافر سوار تھے.
ترکی کی نیوز ایجنسی ڈوگن کے مطابق ایلان کے خاندان نے یونان کے سفر سے پہلے مبینہ طور پر کینیڈا میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔
کینیڈا کے نیشنل نیوز پیپر نے لکھا ہے کہ ایلان کے والد کی خواہش ہے کہ وہ اپنی اہلیہ اور بچے کی لاشوں کے ہمراہ کوبانے واپس جاکر انھیں دفنائے اور خود بھی ان کے ساتھ ہی دفن ہو۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ترکی سے بذریعہ سمندر یونان جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کشتیاں ڈوبنے کے واقعات بھی میڈیا پر آتے رہتے ہیں، لیکن مہاجرین کو پیش آنے والے حالیہ المناک واقعے نے یورپی عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ یورپی یورپین پر اس حوالے سے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔