پورن کے ذریعے انتقام: متاثرین کہاں جائیں؟
گذشتہ ہفتے ڈان کی ایک خبر کے مطابق لاہور میں مجرمان کے ایک گروہ نے کچھ لیڈی ڈاکٹرز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کر کے ان کی نجی معلومات ہتھائیں، اور پھر انہیں بلیک میل کیا۔
یہ خبر پڑھ کر مجھے اس سال کی ابتداء میں ہونے والی ایک پیش رفت یاد آئی کہ امریکا اور برطانیہ نے 'ریوینج پورن' یعنی انتقام لینے کے لیے فریقِ مخالف کی عریاں تصاویر شائع کرنے کو غیر قانونی قرار دیا۔
'ریوینج پورن' میں کسی شخص کی برہنہ تصاویر اس کی اجازت کے بغیر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ان واقعات کے متاثرین کی مدد کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق وہ اسے "بلا اجازت فحش نگاری" کے طور پر دیکھتے ہیں جو "ٹھکرایا گیا سابق دوست یا ساتھی ایک رشتے کے ختم ہونے پر انتقام لینے کے لیے پوسٹ کرتا ہے۔"
"ٹھکرایا گیا سابق دوست یا ساتھی ایک رشتے کے ختم ہونے پر انتقام کے لیے بیتاب"، اگر آپ پاکستان میں پلے بڑھے ہیں تو یہ الفاظ آپ کے لیے نئے نہیں ہوں گے۔ ہر اسکول میں اپنی کہانیاں ہیں، ہر حلقہء احباب لڑائی جھگڑے پر ختم ہونے والے رشتوں کے بارے میں جانتا ہے۔
زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بی بی سی کے مطابق وہ خواتین جو ان معاشروں سے تعلق رکھتی ہیں جہاں عزت اور غیرت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس کا نشانہ زیادہ بنتی ہیں۔ اس طرح پاکستان خواتین کے لیے ایک مشکل جگہ ہے پھر چاہے یہ شادی ہو یا صرف ایک تعلق۔
فیس بک پر ایسے پیجز بڑھتے ہی جا رہے ہیں جن پر پاکستانی خواتین کی ہزاروں تصاویر بغیر اجازت کے پوسٹ کی جاتی ہیں تاکہ ان خواتین کو بدنام کیا جائے جو اپنے دوست یا ساتھی پر بھروسہ کرنے کی غلطی کرتی ہیں۔
متاثرین کو انصاف یا مدد فراہم کرنے والی تنظیمیں ڈھونڈنے میں ناکامی کے بعد میں نے خواتین کی طرف رخ کیا۔ کئی خواتین سے سوال جواب کے بعد بالآخر کئی باتیں آشکار ہوئیں۔
مجھے جو جوابات حاصل ہوئے، انہوں نے میرے مفروضوں کو مزید تقویت بخشی۔ بلیک میلنگ اور انتقامی کارروائی ایک روز مرہ کی حقیقت ہے، جبکہ متاثرین کی مدد کے لیے کوئی ادارہ نہیں، یہاں تک کہ پولیس بھی کئی بار مدد مانگنے والے متاثرین کو مزید پریشان کرنے میں لطف اٹھاتی ہے۔
لڑکیوں کے لیے ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں انہیں مدد مل سکے، اور اس طرح انہیں بسا اوقات زبردستی جذباتی اور جسمانی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کر لیا جاتا ہے۔ انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے کہ اگر جسمانی یا جذباتی تعلق قائم نہیں کیا گیا تو ان کی تصاویر ان کے گھر والوں کو دکھا دی جائیں گی۔ پھر یہ خواتین اپنے گھر والوں کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے اس استحصالی تعلق کو بھی برداشت کر لیتی ہیں۔
کچھ حیران کن جوابات میں خواتین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ پاکستان میں خواتین کو جنسی طور پر دبانا، اور دبائے جانے کے خلاف آواز اٹھانے پر انہیں ہی قصوروار ٹھہرانا عام ہے۔ اس روایت کا سب سے پریشان کن حصہ 'عزت' بچانے کے لیے خاموش رہنا ہے۔
تو اس طرح کی بلیک میلنگ یا انتقام کا شکار ہونے والے لوگ کہاں جائیں؟
میں نے ایف آئی اے کے نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم کی ویب سائٹ دیکھی۔ ان کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ وہ مندرجہ ذیل طرح کی شکایات پر "کارروائی کر سکتے ہیں": بلا اجازت رسائی، ای میل ہیکنگ، سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ ۔۔۔ وغیرہ، مگر کہیں بھی نجی تصاویر کو انتقام یا بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
جب وفاقی تحقیقاتی ادارہ اور ملک کے پولیس اداروں میں مردوں کی بالادستی ہو، اور وہاں پر متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے ان کی بدنامی کی جائے، تو متاثرین اپنے عزت داؤ پر لگائے بغیر انصاف، قانونی مشورہ، اور رہنمائی کہاں سے حاصل کریں؟
اس ڈیجیٹل دور میں خواتین کو تحفظ اور بااختیار بنانے کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
کسی کی تصاویر بلا اجازت شائع کرنا کسی کی نجی زندگی میں در اندازی ہے، اور غیرت کی بنیاد پر قائم معاشروں میں اسے خواتین کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جس طرح امریکا اور برطانیہ نے اس کو جرم قرار دیا ہے، اسی طرح پاکستان کو بھی خواتین کو اس چیز سے بچانے کے لیے سخت قانون سازی کرنی چاہیے۔
گل اندام خان میلبرن میں رہتی ہیں، اور آئی بی ایم میں اسٹریٹجی اینڈ ڈیزائن کنسلٹنٹ ہیں۔
وہ ٹوئٹر پر GulandamKhan@ کے نام سے لکھتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔