نقطہ نظر

ویسپا کی تلاش ... ان کے قبرستان میں

نت نئی موٹرسائیکلوں کی مارکیٹ میں آمد کے باوجود اب بھی کئی لوگ ویسپا چلانا پسند کرتے ہیں۔

میں کلفٹن میں اپنے فلیٹ میں ایک دوست کا انتظار کر رہا تھا مگر میرا دوست طے شدہ وقت پر نہیں آیا تو میں نے اسے فون کیا. میرے دوست کا کہنا تھا کہ وہ آچکا ہے تاہم فلیٹ کا چوکیدار اس کے ویسپا کو کمپاؤنڈ میں آنے کی اجازت نہیں دے رہا۔

میں نے نیچے جانے کے بعد معاملہ حل کروایا۔ واپس اپنے گھر آتے ہوئے میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اس نے یہ ویسپا کہاں سے خریدا جس پر میرے دوست نے بتایا کہ اس نے یہ ایم اے جناح روڈ پر موجود ٹائر مارکیٹ کے ڈیلر سے خریدا تھا. اس نے بتایا کہ یہ 1968 کا ماڈل ہے مگر وہ 1962 ماڈل کا ایک اور ویسپا خریدنا چاہتا ہے.

ہم دونوں اپنے کام پر تبصرہ کرنے بیٹھے لیکن میرا دماغ ابھی بھی ویسپا کی سوچوں میں ہی گم تھا جس پر میں نے کام کی بات مختصر کرتے ہوئے کہا:

’’مجھے بھی ایک ویسپا خریدنا ہے‘‘

ولی نے کہا "زبردست! جیسے کہا جاتا ہے کہ چار پہیوں کی سواری جسم کے لیے ہوتی ہے جبکہ دو پہیوں کی سواری روح کے لیے۔"

وہ مزید تفصیل بتانے لگا کہ کیسے دو پہیوں کی سواری چلانے والا اپنی سواری اور آس پاس سے رابطے میں رہتا ہے جبکہ چار پہیوں والی سواری چلانے والا یہ کبھی نہیں سمجھ سکتا۔

ظاہر ہے کہ یہ پورا فلسفہ میرے سر کے اوپر سے گزر گیا، اور میں نے اسے اپنے ارادے کا بتایا:

’مجھے ویسپا انجن کے بغیر ایک شو پیس کے طور پر خریدنا ہے جسے میں اپنے لاؤنج میں رکھ سکوں۔‘

کمرے میں ایک خاموشی چھا گئی۔

ولی نے کہا پھر بھی یہ ایک بہترین فیصلہ ہے، لیکن مجھے کاغذات کے ساتھ ویسپا خریدنا چاہیے، تاکہ بیچنے کی ضرورت ہو تو باآسانی بیچا جا سکے. یہ جمعے کی شام تھی، چنانچہ ہم نے اگلے دن ویسپا ڈھونڈنے کا پروگرام بنایا.

ویسپا ڈھونڈنے کی مہم

ہم ٹائر مارکیٹ کی طرف چل پڑے اور پھر اپنی گاڑی اردو بازار کے قریب کھڑی کی۔ ولی ایک ویسپا مکینک شہزاد کو جانتا تھا جو ایک 1983 ماڈل کی ویسپا کا مالک بھی ہے۔ اس نے اپنی ویسپا کو گلابی رنگ کیا ہوا تھا اور ہینڈل کے نیچے دو اسپیکر لگائے ہوئے تھے۔ اس کی ویسپا کی سیٹ اور اسپیئر ٹائر کا کور بھی گلابی تھا۔

شہزاد ہمیں قریبی دکانوں پر لے گیا، جہاں ہم نے کئی ویسپا مختلف حالتوں میں دیکھے۔ ولی نے دکانداروں سے 1962 ماڈل کے ویسپا کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ آٹو پارٹس کی دکان پر ایک آدمی ہماری باتیں سن رہا تھا جس نے بتایا کہ اس کے پاس گھر پر ایک ویسپا ہے لیکن وہ اسے صرف پیر کے دن لا سکتا ہے۔

ولی نے بعد میں مجھے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر ویسپا مختلف مقامات پر رکھے ہیں اور دکانداروں کی جانب سے مرمت کے منتظر ہیں جس کے بعد انہیں فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔ ہم ایک ویسپا کے لیے بہت زیادہ دور تک نہیں جاسکتے تھے تو شہزاد نے ہمیں اس علاقے کے سب سے بڑے ڈیلر کے پاس جانے کی تجویز دی۔ میں وہاں پیدل جانا چاہتا تھا مگر اس نے ہمیں اپنے ویسپا پر سفر کی پیشکش کردی۔

میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا " کیا ہم تینوں؟"

شہزاد اور ولی میری تشویش کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے ہی اسکوٹر پر بیٹھ چکے تھے، میں بھی ولی اور اضافی ٹائر کے درمیان کسی نہ کسی طرح پھنس کر بیٹھ گیا اور ہم چل پڑے۔

ہم برنس روڈ کے پاس سے گزرے تو ولی نے کچھ ویسپا اسکوٹرز دیکھے جس نے اسے خوش کردیا۔ ایک سگنل پر ولی نے ایک ایکواریم شاپ کی جانب متوجہ کروایا اور شہزاد سے روکنے کا کہا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک پالتو سانپ لے چکا ہے اور اس کے لیے ایک ایکواریم کی ضرورت ہے جس میں مچھلیوں کے ایکواریم جیسی کسی سجاوٹ کی ضرورت نہیں۔ ہم نے متعدد ایکواریمز دیکھے مگر دکاندار سے قیمت پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

ہم نے اپنا سفر پھ شروع کیا اور کچھ موڑ کاٹنے کے بعد ہم ایک دکان پر پہنچ گئے جو ایم اے جناح روڈ پر گاڑیوں کی ورکشاپس کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ عبداللہ بھائی نامی ڈیلر کی اس دکان میں متعدد ماڈلز کے ویسپا موجود تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے دکان ابھی ابھی ہی کھولی ہے کیونکہ ایک ہیلپر بائیکس کو ڈسپلے پر لگا رہا تھا۔

ولی، شہزاد اور عبداللہ بھائی ایک ویسپا کے ماڈل سے دوسرے ماڈل پر مذاکرات میں مصروف ہوگئے۔ ولی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے ان میں سے کوئی پسند آئی جس پر میں نے اسے بتایا کہ مجھے سب ہی بہت اچھی لگی ہیں البتہ میں ان میں سے کسی ایک کی مکمل شکل اپنے ذہن میں نہیں لا پارہا ہوں۔

ولی نے مجھے بتایا کہ آج کل قیمتیں کچھ بڑھ گئی ہیں، جس کی وجہ کلیکشن کے شوقین صاحبِ ثروت لوگوں اور غیر ملکیوں کی پرانی ماڈلوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے، کچھ تو انہں ٹھیک ٹھاک کروانے کے بعد انہیں اٹلی اور اس سے اگے بھی بر آمد کرنے لگے ہیں۔

جب کسی نے بتایا کہ رنچھوڑ لائن میں طاہر مستری کے پاس اسکوٹرز کا بڑا ذخیرہ ہے تو ہم عبداللہ بھائی کی دکان سے باہر نکلے۔ ہمیں بتایا گیا کہ بیشتر کی حالت خراب ہے اور انہیں کافی مرمت کی ضرورت ہوگی مگر پھر بھی ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔

ایم اے جناح روڈ سے گزر کر ہم عید گاہ کے علاقے سے فلاور مارکیٹ سے گزرے، شہزاد اپنی ویسپا کو تنگ جگہوں سے بھی مہارت کے ساتھ نکال رہا تھا، تاہم مجھے اپنی ٹانگوں کا خطرہ تھا جو لٹکی ہوئی تھیں۔ ہم نے بوہرا پیر کراس کیا اور آخر کار ایک تنگ گلی میں پہنچے جو ورکشاپس سے بھری ہوئی تھی۔

طاہر مستری کی دکان گلی کے اختتام پر تھی۔ ہم اس کی جانب بڑھے اور طاہر سے کہا کہ ہمیں ایک "62 کے ماڈل" کی ضرورت ہے، وہ ہمیں ایک اور پتلی گلی میں لے گیا جو کہ کچھ زیادہ ہی تاریک تھی اور ویسپا اسکوٹرز کا قبرستان ثابت کر رہی تھی۔ کسی نے مجھے بتایا کہ یہاں کسی بھی ماڈل کا کوئی بھی پرزہ باآسانی مل سکتا ہے۔

قدیم مشینری کے اس ڈھیر میں ہم نے ایک 62 ماڈل کی ویسپا تلاش کرلی۔ طاہر نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم اسے خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اسے بالکل نئی جیسی کنڈیشن میں لے آئے گا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کے کچھ پرانے ویسپا حیدرآباد میں موجود ہیں، اگر ہم اگلے روز اس کے ساتھ حیدرآباد جاکر انہیں دیکھنا چاہیں تو وہ ہمیں بخوشی لے جائے گا۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا، مگر پھر نہ جانے کا فیصلہ کیا۔

ہم دکان سے باہر نکلے تو ولی اور شہزاد کے درمیان طاہر مستری سے 62 ماڈل کے اسکوٹر کی خریداری پر بحث شروع ہوگئی، آخر کار انہوں نے حیدرآباد سے دیگر ماڈلز آنے کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

ولی نے اعلان کیا کہ اسے بھوک لگی ہے چنانچہ ہم نے لنچ کا وقفہ کیا، شہزاد نے بتایا کہ قریب ہی ایک دکان پر علاقے کی سب سے بہترین نہاری ملتی ہے، جس پر ہم سب فوراً متفق ہو گئے — یہ اس روز کا ہمارا پہلا اتفاق تھا۔

نہاری کی دکان پر کچھ ورکرز بینچوں پر بیٹھے کھانے سے لطف اندوز ہورہے تھے، ہم بھی ایک بینچ پر بیٹھ گئے اور ایک پلیٹ نہاری اور چنے کی دال کا آرڈر دیا۔ چند ہی منٹوں میں کھانا ختم ہوچکا تھا۔ پھر ہم نے شہزاد سے کہا کہ وہ ہمیں گاڑی تک واپس لے جائے۔

جیسے ہی ہم دوبارہ ایم اے جناح روڈ پر پہنچے تو میں نے بائیں جانب بانس کے پردوں (چقوں) کی دکانیں دیکھیں اور ولی سے کہا کہ مجھے اپنے گھر کے لیے کچھ چقوں کی ضرورت ہے۔ ہم ویسپا سے اترے اور شہزاد کو الوداع کہا جو سیدھا اپنی دکان چلا گیا۔

ولی وہاں کے دکاندار محبوب سے پہلے ہی واقف تھا جو مناسب قیمت پر چقیں تیار کرتا ہے۔ اس کی دکان ایم اے جناح روڈ کے آغاز میں ایک چھوٹی گلی میں تھی۔ ہم جب محبوب کو آرڈر دے رہے تھے تو میں نے ایک پتھریلے دروازے کو دیکھا جو سیمنٹ کی نئی عمارات کے درمیان تھا۔ اس کے اوپر ایک بورڈ لگا ہوا تھا۔ میں نے ولی اور محبوب کو مول تول کرتے ہوئے چھوڑا اور وہاں چل پڑا۔ اوپر لکھا تھا "غریب مسافروں کے لیے یہ دھرم شالہ حاجی محمد مولیدینا اور کراچی میونسپلٹی کے مشترکہ اخراجات پر 1893 میں تعمیر کی گئی۔ آرکیٹکٹ جے اسٹراچن ایم آئی سی ای۔"

ایک دھرم شالہ، وہ بھی جیمز اسٹراچن کی تعمیر کردہ، جو اپنے دور کے ممتاز ترین آرکیٹکٹس میں سے ایک تھے، جنہوں نے میری ویدر ٹاور، ڈی جے سائنس کالج، کراچی کا پہلا نکاسیء آب کا نظام اور دیگر تاریخی مقامات ڈیزائن کیے تھے۔

محبوب نے مجھے بتایا کہ یہاں ایک مسافر خانہ ہوا کرتا تھا، جس کو مزید عمارتوں کی جگہ بنانے کے لیے منہدم کر دیا گیا ہے۔ "اور غریب مسافروں کا کیا؟"میں نے پوچھا۔ محبوب نے اپنے کندھے جھٹک دیے. اس شہر میں کئی غریب مسافر رہنے کے لیے کم قیمت اور معقول رہائش ڈھونڈتے ہیں، مگر اس پر کسی کی توجہ نہیں۔ مسافر خانہ اب نہیں رہا مگر یہاں کے دوکاندار ابھی بھی مسافر خانے کے نام سے راستے بتاتے ہیں۔ ہم گاڑی میں واپس بیٹھے اور گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ میں اور ولی ویسپا سے متعلق فیصلہ نہیں سکے، مگر اس دوران ہم نے شہر کے بارے میں بہت کچھ سیکھا،

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


فاروق سومرو کراچی کے رہائشی ہیں جو کراچی کی زندگی (یا اس کی عدم موجودگی) سامنے لاتے ہیں۔ انہیں ونائل ریکارڈز اور کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے۔

انہیں فیس بک پر فالو کریں، اور ان کی ویب سائٹ دی کراچی والا وزٹ کریں۔

فاروق سومرو

فاروق سومرو کراچی کے رہائشی ہیں جو کراچی کی زندگی (یا اس کی عدم موجودگی) سامنے لاتے ہیں۔ انہیں ونائل ریکارڈز اور کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔