’آئٹم سانگ خواتین کی بے عزتی ہیں‘
پاکستانی اداکار حمزہ علی عباسی کا کہنا ہے کہ اداکارائیں اپنی ذاتی زندگی میں کچھ بھی کریں البتہ فلم میں آئٹم سانگ کرنا ان کی ذاتی پسند نہیں ہوسکتی۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے حمزہ علی عباسی کا کہنا تھا کہ وہ گانوں کے خلاف نہیں ہیں کیوں کہ یہ اب ہماری ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں مگر وہ آئٹم نمبرز کے خلاف ہیں کیونکہ ان میں خواتین کو مختصر لباس میں رقص کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئٹم نمبرز خواتین کے لیے بے عزتی کا باعث بنتے ہیں۔
حمزہ نے فلموں کے پروڈیوسرز، ہدایت کاروں، اداکاروں اور سینسر بورڈ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آئٹم سانگ فلم میں شامل کرنا ان سب کی غلطی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سینسر بورڈ سے سوال کریں گے کہ آخر وہ آئٹم سانگ کو فلموں میں شامل کرنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں۔
حمزہ کا اس سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ اس فلم کی کامیابی کی وجہ آئٹم سانگ نہیں بلکہ اس فلم کی بہترین ڈائریکشن تھی۔
حمزہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ اداکارائیں اپنی مرضی سے آئٹم سانگ کرتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ فلموں کا معاشرے پر گہرہ اثر ہوتا ہے اس لیے ان میں ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جو غلط ہو۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل حمزہ نے پاکستانی فلموں میں آئٹم سانگ کی شدید مخالفت کی تھی۔
انہوں نے اپنی آنے والی فلم ’جوانی پھر نہیں آنی‘ میں نامناسب گانوں پر اعتراض کرتے ہوئے اس کی تشہری مہم کا حصہ بھی نہ بننے کا اعلان کیا ہے.
اس حوالے سے حمزہ کا کہنا تھا کہ اس فلم میں جو غلط ہوا اس کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی اور اس کے خلاف کھڑے ہوئے۔
بولی وڈ سے کوئی آفر آئی؟
اس سوال پر حمزہ کا کہنا تھا کہ بولی وڈ پروڈیوسر ساجد نڈیا والا نے انہیں ایک فلم کی پیشکش کی تھی.
انہوں نے کہا کہ اداکاروں کو بولی وڈ میں اپنی قدر و قیمت کو دیکھ کر ضرور فلمیں کرنی چاہئیں۔
حمزہ 2014 کے پشاور سانحہ پر بننے والی ایک ٹیلی فلم میں بھی ہدایتکاری کے فرائض سرانجام دیں گے. اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا تاہم اس فلم کے لیے ابھی انہیں آئی ایس پی آر کی اجازت کی ضرورت ہے۔