کھیل

مصباح الحق: جنگی عہد کا کپتان

مصباح نے بطور کپتان اپنے تمام میچز جن میں کامیابی، ناکامی یا ڈرا کا سامنا ہوا، غیرملکی سرزمین پر کھیلے۔

حال ہی میں ایک معتبر برطانوی اخبار نے پاکستان کے مصباح الحق کو کرکٹ کی دنیا کا سب سے بہترین ہم عصر ٹیسٹ کپتان قرار دیا۔

ایک کپتان کے طور پر مصباح الحق منفرد ہیں، ممکن ہے کہ وہ جدید عہد کے کھیل کا پہلا ' جنگ کے زمانے' کا کپتان ہو۔

جب مصباح کو پاکستان ٹیم کے لیے طلب کیا گیا اور 2011 میں کپتانی سونپی گئی تو ملک اپنے وجود کے بحران کے درمیان پھنسا ہوا تھا، انتہا پسند دہشتگرد تنظیمیں مساجد، بازاروں اور مزاروں میں دھماکے کررہی تھیں اور سویلین، پولیس اور فوجی اہلکاروں کو مار رہی تھیں۔


ایک اچھا اور مستقل مزاج کرکٹرز ہونے کے ساتھ ساتھ کپتان میں قائدانہ صلاحیتیں بھی ہونی چاہئیں جو کسی فوجی جرنیل یا سیاسی رہنما میں پائی جاتی ہیں۔


ملک ایک جنگ کے دہانے پر کھڑا تھا جو آج ایسی جنگ میں بدل گیا ہے جو ایک محفوظ پاکستان کی نوید ہے۔

مگر 2011 میں ملک گہری کھائی سے اوپر دیکھ رہا تھا، اس کے حکمران، فوج اور ریاست کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس طرح عسکریت پسندی، انتہاپسندی، کرپشن اور جرائم جیسے بڑھتے عفریتوں کو روکا جائے۔ ملک کو بین الاقوامی تنہائی کا سامنا تھا، مثال کے طور پر کوئی ٹیسٹ ٹیم 2009 میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد دورہ پاکستان کی خواہشمند نہیں تھی۔

مصباح نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی پاکستان میں کبھی قیادت نہیں کی، اسے کبھی وہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکا جسے کرکٹ کی زبان میں ہوم ایڈوانٹیج کہا جاتا ہے. 2009 کے بعد سے پاکستان کی بیشتر ' ہوم سیریز' کا انعقاد متحدہ عرب امارات(یو اے ای) میں ہوا۔

کسی اور کھیل سے زیادہ کرکٹ میں جو ٹیمیں غیر ملکی دوروں اور غیر ملکی شائقین کے سامنے زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہیں وہ خود کو ذہنی طور پر مضبوط ثابت کرتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو پاکستان ٹیم 2009 سے کررہی ہے خاص طور پر 2011 میں مصباح کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے۔

مصباح نے بطور کپتان اپنے تمام میچز جن میں کامیابی، ناکامی یا ڈرا کا سامنا ہوا، غیرملکی سرزمین پر کھیلے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصباح جو آج پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان بن چکے ہیں، اس وقت ٹیم کا حصہ ہی نہیں تھے جب انہیں جلد بازی میں کپتان بنایا گیا۔

جب مصباح کو قیادت سونپی گئی تو انہوں نے ٹیم میں تیسری بار واپسی کی تھی اور وہ بھی 36 سال کی عمر میں جب بیشتر انٹرنیشنل کرکٹرز یا تو ریٹائر ہوجاتے ہیں یا ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں۔

مصباح نے قومی ٹیم میں اپنا ڈیبیو 2001 میں کیا مگر (خراب فارم کے باعث )2002 میں اپنی جگہ کھو دی۔

تاہم اس حقیقت کے برخلاف کہ وہ ڈومیسٹک سرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے، ان کی واپسی ٹیم میں برسوں تک نہیں ہوسکی اور مصباح کو آخرکار 2007 میں طلب کیا گیا۔

وہ کم بیک کے بعد پہلے ایونٹ جنوبی افریقہ میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں لگ بھگ ہیرو بن ہی گئے تھے، اور کیا شاندار کم بیک تھا۔ مصباح کی بیٹنگ نے پاکستان کو فائنل میں پہنچنے میں مدد دی۔

انہوں نے (انڈیا کے خلاف) فائنل کا پانسہ لگ بھگ بدل ہی دیا تھا حالانکہ پاکستانی بیٹنگ انڈین ہدف کے تعاقب میں ڈھے گئی تھی مگر مصباح نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور انڈین باﺅلنگ اٹیک کی گیندوں کو اسٹیڈیم کے ہر حصے میں پھینکنا شروع کردیا اور پاکستان کو شاندار فتح کے قریب تر لے گئے، مگر آخری اوور میں آﺅٹ ہو گئے۔

افسوسناک امر یہ کہ 2010 میں وہ فارم اور ٹیم میں اپنی جگہ سے محروم ہو گئے۔

سابق پاکستانی کپتان انضمام کی ریٹائرمنٹ (2007 میں) اور مصباح کے 2011 میں بطور کپتان کے عروج پر پہنچنے کے درمیانی عرصے میں ٹیم پانچ کپتانوں کے ہاتھ میں رہی۔

ٹیم وطن میں کھیل نہ سکی جس کی وجہ یہاں انتہاپسندانہ تشدد اور سیاسی انتشار رہا، اس آزمائشی دور میں اسکواڈ بھی مسلسل لڑائیوں، کھلاڑیوں کی بغاوت اور اسپاٹ فکسنگ کے باعث ٹکڑوں میں بٹ گیا۔

جب تذبذب کے شکار پاکستان کرکٹ بورڈ نے کپتانی مصباح کے حوالے کی تو اسے اس فارم کو حاصل کرنے میں جدوجہد کا سامنا ہوا جو بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

یہ ایک عارضی انتظام تھا اور مصباح کو کہا گیا تھا کہ وہ اس وقت تک نگران کی ذمہ داریاں سنبھالے جب تک بورڈ کپتانی کے ایک مستقل امیدوار کے ساتھ سامنے نہیں آتا مگر یہ وہ لمحہ تھا جب مصباح نے اپنی بہترین کرکٹ کھیلنا شروع کی۔

ٹیم میں ایک مضبوط مڈل آرڈر بلے باز کی حیثیت سے اپنی جگہ بنانے کے بعد مصباح نے بتدریج اس کلچر کو ختم کرنا شروع کیا جس کو انضمام کے چار سالہ دور کپتانی (2003-2007) میں بنا گیا تھا۔

مصباح کے زیر سایہ کرکٹ ایسا کھیل بن گیا جو ایک کھلاڑی کی قدر کا اندازہ لگا سکے، انہوں نے زیادہ محتاط، منصوبہ بندی اور بہتر سوچ کے ساتھ ٹیم کی ناقابل یقین حد تک ناقابل اعتبار کارکردگی دکھانے کی ساکھ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

اس پر ناقدین اور پرستاروں کی جانب سے مصباح کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ خاموشی کے ساتھ ٹیم کو اکھٹا کرتا رہا اور عالمی رینکنگ میں اوپر کی جانب سست رفتار پیش قدمی جاری رکھی۔

مگر مصباح کی مستحکم حکمت عملی اور طریقہ کار نہ صرف نمائشی کرکٹنگ صلاحیتوں کی روک تھام میں معاون ثابت ہوا بلکہ اس نے ٹیم میں فاسٹ باﺅلرز کی بجائے اسپنرز کے کردار کو زیادہ نمایاں بنادیا۔

یہ ماضی کے مقابلے میں بالکل الگ تھا، 1980 کی دہائی کے وسط سے فاسٹ باﺅلرز پاکستانی اٹیک کی قیادت کررہے تھے، مصباح کی زیر قیادت اسپنرز نے برتری حاصل کی اور اسی برتری کے نتیجے میں اسے کرکٹ کی تاریخ کا ایک بہترین اور تخلیقی سوچ کا حامل اسپنر سعید اجمل ملا۔

مصباح کی قیادت میں سعید اجمل ٹیم کا مین اسٹرائیک باﺅلر بن گیا، بلے باز کے تحمل اور اچھی تکنیک کو ترجیح دیے جانے کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی کی جانے لگی (اسد شفیق، اظہر علی) مگر پھر بھی بلے بازی کا زیاد تر بوجھ مصباح اور ٹیم کے دوسرے تجربہ کار کھلاڑی یونس خان کے کندھوں پر ہی تھا۔

انتہائی سست رفتار لیکن یقینی طور پر مصباح کی حکمت عملی ثمر آور ثابت ہونے لگی، تاہم اسی دوران اس نے کچھ انتہائی بولنے والے ناقدین کو بھی اکھٹا کرلیا جو مصباح کے جوش، رویے اور انصمام کے ڈیزائن کردہ ٹیم کلچر کو بکھیر دینے کے طریقے سے چڑے ہوئے تھے۔

اچھے اور بااثر کپتانوں کی ماتحت ٹیموں میں بھی اس شخص کی شخصیت جھلکنے لگتی ہے۔ مشتاق محمد اور عمران خان کی ٹیموں میں ان کے کپتانوں کی شخصیت کی شوخی اور بہادری جھلکتی تھی اور کچھ حلقے یہ وسیم اکرم کی زیر قیادت پروان چڑھنے والی ٹیم کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر انضمام کی شخصیت کی بات کی جائے تو ان کی زیرقیادت ٹیم کلچر بہت خاموش اور متضاد ہوگیا تھا، یعنی سماجی طور پر اپنی ذات میں گم مگر مذہب کے معاملے میں نمائش حالانکہ بطور بلے باز انضمام بہت زیادہ جارحانہ سمجھا جاسکتا ہے۔

مصباح کے زیرتحت ٹیم زیادہ مستقبل مزاج اور پرعزم سوچ کے ساتھ ابھری، مصباح کی طرح ٹیم نے بھی اپنے عقیدے کو زیادہ نمایاں نہیں کیا، عقیدہ ایک بار پھر پاکستان کرکٹ میں انتہائی نجی معاملہ بن گیا۔

مصباح کی ٹیم مشتاق اور عمران کی ٹیموں جیسی رنگا رنگ ہے اور نہ ہی ویسی جیسی انضمام کی قیادت میں تھی۔

2013 میں مصباح نے بیشتر پاکستانی کپتانوں کے مقابلوں میں زیادہ ٹیسٹ اور ون ڈے کامیابیاں حاصل کیں۔

دو سال بعد 2015 میں اس نے عمران خان اور جاوید میاں داد جیسے سابق عظیم کھلاڑیوں سے مشترکہ ٹیسٹ کپتانی کا ریکارڈ حاصل کرلیا اور پاکستان کے سب سے زیادہ میچز جیتنے والے ٹیسٹ کپتان بن گئے۔

بطور کپتان ان کی بیٹنگ اوسط پچاس سے زائد رہی جبکہ اپنی قیادت میں انہوں نے زیادہ ففٹیز اور سنچریاں اسکور کیں جو وہ بطور بلے باز اپنے کیریئر کے کسی مرحلے میں نہیں کرپائے تھے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مستقل مزاج، خاموش طبع مگر ثابت قدم و پرعزم مصباح نے متعدد ایسے چیلنجز کا سامنا کیا جن کی نظیر نہیں ملتی۔

جں حالات کا سامنا انہیں بطور کرنا پڑا جیسے ایسے کرکٹ تنازعات جن کا وہ کبھی حصہ نہیں بں اور اپنے ملک میں تشدد و انتشار جس نے پاکستان کرکٹ کو جلاوطن کردیا تھا جیسی مشکلات کو شکست دے کر وہ اپنے ہم عصر کپتانوں کے مقابلے میں ایک عظیم کپتان بن جات ہٰن۔