پاک ہند مذاکرات منسوخ ہونے پر امریکا مایوس
واشنگٹن: امریکا نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات کے منسوخ ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکا جلد ہی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے ہندوستان اور پاکستان پر زور دے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات کے لیے دوبارہ کوششوں کی حوصلہ افزائی کرئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے اوفا میں بھی ہندوستان اور پاکستان کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
مزید پڑھیں: 'پیشگی شرائط کے بغیر دہلی جانے کیلئے تیار'
واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات 23 اگست کو ہونے جارہے تھے تاہم ہندوستان کی جانب سے مذاکرات سے قبل پاکستانی وفد کی کشمیری حریت رہنماؤں سے ملاقات پر اعتراض اٹھائے جانے اور مذاکرات میں صرف دہشت گردی پر بات چیت کی شرائط لگائے جانے پر مذاکرات کٹھائی میں پڑگئے ہیں۔
گذشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے سیکیورٹی اور امور خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ہندوستان سے غیر مشروط مذاکرات چاہتا ہے، پیشگی شرائط کے بغیر اب بھی دہلی جانے کے لیے تیار ہیں۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاک ہند مذاکرات منسوخ ہونے کا خدشہ ہے، ہندوستان کی جانب سے امن مذاکرات دوسری بار معطل ہوں گے جبکہ پاکستان تمام معاملات مذاکرات کی میز پر حل کرنا چاہتا ہے۔
ہندوستان کی جانب سے اوفا معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام غلط ہے، معاہدے میں طے ہوا تھا کہ تمام 'اہم' مسائل پر مذاکرات ہوں گے۔
خارجہ امور کے مشیر نے کہا کہ ہندوستان معاہدے سے کشمیر کو ہٹا کر غلط معنی دے رہا ہے، اگر کشمیر مسئلہ نہیں تو وہاں ہزاروں ہندوستانی فوجی کیا کر رہے ہیں، مسئلہ کشمیر سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔
سرتاج عزیز کی پریس کانفرنس کے جواب میں ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ سرتاج عزیز کشمیری رہنماؤں سے ملے تو مذاکرات نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاک ہند مذاکرات میں کوئی تیسرا فریق نہیں'
سشما سوراج نے کہا کہ پاک ہند مذاکرات میں تیسرے فریق کی گنجائش نہیں ہے، پاکستان سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ تیسرے فریق کو مذاکرات میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس جواب دینے کے لیے صرف ایک رات کا وقت ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان نے کوئی پیشگی شرائط نہیں رکھی۔
اوفا معاہدے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ باور کرایا گیا تھا کہ کشمیر پر بات نہیں ہو گی، اوفا میں دہشت گردی کے مسئلے پر مذاکرات پر اتفاق رائے ہوا تھا۔
مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا بات صرف دہشت گردی کے مسئلے پر ہونی ہے، مذاکرات سے حریت قیادت کو نکالا جائے اوریہ مذاکرات بھی صرف پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے درمیان ہوں گے۔
ہندوستانی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بات چیت کا بنیادی مقصد تناﺅ کو کم کرنا اور اعتماد کی بحالی ہے " اگر قومی سلامتی مشیروں کی سطح پر مذاکرات کا واحد مقصد امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے صرف دہشتگردی پر تبادلہ خیال ہے تو اس سے الزامات کے تبادلوں اور ماحول میں کشیدگی میں ہی اضافہ ہوگا"۔
اس خبر سے متعلق مزید جانیے: ہندوستانی شرائط پر بات چیت بے فائدہ، پاکستان
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق اسی لیے پاکستان نے اوفا بیان کے تحت دہشتگردی سے متعلقہ معاملات کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے درمیان کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام مسائل پر بات چیت کی تجویز دی تھی" ہندوستانی وزیر نے اوفا بیان کے تمہیدی اور موثر پیراگرافس میں تفریق کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی پوزیشن کو جائز قرار دے سکیں، جو کہ تناﺅ میں کمی اور اعتماد کی بحالی میں بہتری کے حوالے سے بہتر نہیں"۔
ہندوستانی وزیر کی حریت رہنماﺅں سے ملاقات کے حوالے سے دوسری شرط کے بارے میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ بار بار کہا جاچکا ہے کہ کمشیری رہنماﺅں سے ملاقات ایک پرانی مشق ہے اور گزشتہ بیس برسوں کے دوران جب بھی پاکستانی رہنماﺅں نے ہندوستان کا دورہ کیا انہوں نے حریت رہنماﺅں سے ملاقاتیں کیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ غیرمناسب ہے کہ ہندوستان اب اس پرانی روایت کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی شرط عائد کردے " پاکستان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیروں کی شیڈول ملاقات ہندوستان کی طے کردہ شرائط کی بنیاد پر نہیں ہوگی"۔