پاکستان

فوجی عدالت کا ریکارڈ فراہمی کی درخواست مسترد

سپریم کورٹ کے رجسٹرار نےدرخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست کے حوالے سے نجی عدالتوں سے رجوع نہیں کیا گیا۔
| |

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم کے والد کو ٹرائل کا ریکارڈ فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے حیدر علی کے والد ظاہر شاہ نے 8 اگست کو سپریم کورٹ میں پٹیشن جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے بیٹے پر فوجی عدالت میں چلائے جانے والے مقدمے کی کارروائی کا ریکارڈ فراہم کیا جائے تاکہ اعلیٰ عدالتوں میں اس کو چیلنج کرنے کے لیے مناسب اپیل تیار کی جاسکے۔

ظہیر شاہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ نے یہ پٹیشن جمع کروائی تھی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالت سے سزا،سپریم کورٹ میں پہلی اپیل دائر

گذشتہ روز سپریم کورٹ رجسٹرار نے پٹیشن واپس کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وہ اس حوالے سے ہائیکورٹ یا قانون کے تحت دستیاب کسی دوسرے مناسب فورم سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے دیئے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پٹیشنر براہ راست سپریم کورٹ سے رابطہ کرنے کا کوئی معقول جواز بھی پیش کرنے سے قاصر رہا ہے جبکہ اس حوالے سے ذیلی عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتا تھا۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ پٹشنر کی جانب سے پیش کیا جانے والا سرٹیفیکیٹ سپریم کورٹ کے رولز 1980ء کے حکم 25 کے رولز 6 پر پورا نہیں اترتا ہے۔

خیال رہے کہ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے بیٹے حیدر علی کو 2009ء میں 14 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ فوجی حکام کے مطالبے پر حیدر علی کو پیش کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ

سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق حیدر علی کی گرفتاری کے 6 سال بعد معلوم ہوا کہ حیدر علی لوئر دیر کی تیمرگرہ جیل میں قید ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ حیدر علی کو ملنے والی سزا کا ریکارڈ فراہم کیا جائے تاکہ اس کے مطابق قانونی چارہ جوئی کی جاسکے۔

یاد رہے کہ یہ آئینی درخواست حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کو برقرار رکھنے کے فیصلے پر جمع کروائی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے ملزمان کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

فیصلے کے مطابق 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں 11 ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ 6 نے مخالفت کی، یوں اکثریت کی رائے پر فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔

پارلیمنٹ نے گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خصوصی عدالتیں قائم کرنے کیلئے 21ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ۔1952 منظور کیا تھا۔

بعدازاں، رواں سال 16 اپریل کو فوجی عدالتوں کی جانب سے چھ دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیوں کو معطل کرتے ہوئے عدالت نے سپریم کورٹ بار کونسل کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی دائر درخواست پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔