سابق کھلاڑی ’اسپاٹ فکسرز‘ کی واپسی پر تقسیم
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) نے تو سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر پر اسپاٹ فکسنگ کے باعث عائد پابندی ہٹانے کا اعلان کردیا ہے لیکن ان تینوں کھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں واپسی کے معاملے پر پاکستانی کرکٹ برادری اس معاملے پر تقسیم ہو گئی ہے۔
قومی ٹیم کے سابق کپتان راشد اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں اسے کسی بھی اقدام کے سخت خلاف ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں ان کی عالمی کرکٹ میں واپسی کی بالکل بھی حمایت نہیں کروں گا جس کی وجہ بہت ہے اور یہ کہ یہ کسی ایسے کھلاڑی کی جگہ لیں گے جو شاید ان کے جتنا باصلاحیت نہ ہو لیکن اس نے کوئی غیر اخلاقی کام نہیں کیا اور نہ ہی وہ کرپشن میں ملوث رہا۔
راشد لطیف نے کہا کہ یہ آپ صاف ستھری کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی ہے‘۔
’میں اس صورتحال کو ایسے دیکھتا ہوں کہ جو چخص کرپشن اور چیٹنگ میں ملوث رہا ہو، اس کا دوبارہ پاکستان کیلئے کھیلنا غلط ہے۔ ایسا ان کھلاڑیوں کے ساتھ غلط ہے جنہوں نے قانونی تقاضوں کے مطابق کرکٹ کھیلی‘۔
یاد رہے کہ راشد 1990 کی دہائی میں پاکستان کرکٹ میں کرپشن اور میچ فکسنگ سے پردہ اٹھانے والے ہیں جس کے بعد تحقیقات کے نتیجے میں جسٹس ملک قیوم نے سلیم ملک اور عطاالرحمان پر تاحیات پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ عدالتی کارروائی میں تعاون نہ کرنے پر پانچ کھلاڑیوں پر جرمانے بھی کیے تھے۔
ان میں سے دو کھلاڑی وقار یونس اور مشتاق احمد اس وقت قومی ٹیم کے کوچ ہیں۔
صرف راشد لطیف ہی نہیں بلکہ دیگر کھلاڑی بھی ان کی عالمی کرکٹ میں واپسی کے مخالف ہیں اور انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) پر زور دیا کہ وہ ان تینوں کھلاڑیوں پر ڈومیسٹک کرکٹ تک محدود رکھیں۔
تین سال قبل قومی ٹیم چیف سلیکٹرز اور ہیڈ کوچ کی خدمات انجام دینے والے محسن حسن خان بھی عامر آصف اور سلمان بٹ کی قومی ٹیم میں واپسی کے مخالف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تینوں کھلاڑیوں نے یقیناً اپنی سزا پوری کر لی ہے لیکن میرے نزدیک اپنے ملک کیلئے کھیلتے ہوئے میچ کو بیچنا یا فکس کرنا بہت بڑا جرم ہے اور اگر ایک دفعہ کوئی ایسا کر دیتے تو وہ دوسرے موقع کا مستحق نہیں۔
محسن خان نے کہا کہ میں پرانے خیالات کا مالک ہوں اور میرے نزدیک ایسے کھلاڑیوں کو دوبارہ قومی ٹیم میں موقع دینا بہت مشکل ہے۔قومی ٹیم کے ایک اور سابق کپتان اور نامور کمنٹیٹر رمیز راجہ بھی ماضی میں ان کھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں واپسی کی مخالفت کر چکے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم میں واپسی سے ڈریسنگ روم کا ماحول خراب ہو گا.
راجا نے کہا تھا کہ موجودہ ٹیم کے کھلاڑیوں سے پوچھا جانا چاہیئے کہ آیا وہ عامر کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں؟.
' کوئی پاکستانی کھلاڑیوں سے پوچھے کہ کیا وہ عامر کی واپسی چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ کئی سالوں کی ثابت قدمی کے بعد، مصباح الحق اور ان کی ٹیم پاکستان کرکٹ اور اس کے امیج کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں'۔
تاہم قومی ٹیم کے ایک اور سابق کپتان اور مایہ ناز بلے باز محمد یوسف ان کھلاڑیوں کو ایک موقع دینے کے حق میں ہیں۔
یوسف نے کہا کہ اگر یہ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تو ان کی قومی ٹیم میں سلیکشن پر غور ہونا چاہیے، میرا نہیں خیال کہ مصباح الحق یا اظہر علی کو ان کی واپسی سے کوئی مسئلہ ہو گا۔
رن مشین کے نام سے مشہور سابق بلے باز نے کہا کہ انہوں نے غلط کیا لیکن انہیں اس کی سزا مل چکی ہے، اگر دیگر کھلاڑیوں کو غلطی کی سزا بھگتنے کے بعد کرکٹ میں واپسی کی اجازت ملی تو پھر ان تینوں کو کیوں نہیں۔
سابق بلے باز باسط علی نے بھی محمد یوسف کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ڈومیسٹک کرکٹ میں خود کو منوا لیتے ہیں تو ان کی ٹیم میں سلیکشن پر غور ہونا چاہیے۔
’جو کچھ ہونا تھا، سو ہو گیا اور انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لی ہے۔ ہر کوئی غلطی کرتا ہے تو پھر انہیں کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان کے لیے دوبارہ کھیلنے کا موقع کیوں نہ دیا جائے۔
عامر پہلے ہی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ سلمان بٹ بھی راولپنڈی میں یکم سے 15 ستمبر سے راولپنڈی میں ہونے والی ٹی ٹوئنٹی چیمپیئن شپ میں لاہور بلوز کی نمائندگی کرنے کی تصدیق کر چکے ہیں۔