صدر کراچی: بین المذاہب ہم آہنگی کی عمدہ مثال
صدر کراچی: بین المذاہب ہم آہنگی کی عمدہ مثال
کئی سالوں سے سیاسی اور فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں رہنے والا کراچی بہترین شہرت کا حامل نہیں ہے، اور اگر گذشتہ چند سالوں کی سرخیوں کو مدِ نظر رکھیں، تو شاید اسے برداشت سے خالی شہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر شہر کی تقریباً ہر مذہبی برادری کے ساتھ اسکول اور کالج جانے کی وجہ سے مجھے یہ ماننے میں اب بھی دشواری ہوتی ہے کہ کراچی کے لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت کرتے ہیں۔
لہٰذا میں کراچی کے صدر کے علاقے کو قریب سے دیکھنے کے لیے نکل پڑا ہوں۔
میں نے تاریخی زیب النساء اسٹریٹ سے سینٹ پیٹرک کتھیڈرل تک پیدل چلنا شروع کیا۔ آپ یہاں سے چلتے جائیں، تو ہر ایک بلاک پر ایک مختلف مذہبی برادری آباد نظر آئے گی۔ یہاں پر یہ برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ کئی سالوں سے بھائی چارے سے رہ رہی ہیں۔
میرے راستے میں پہلی مذہبی عمارت انتہائی خوبصورت مگر نظرانداز کردہ کچھی میمن مسجد ہے۔ اس سڑک پر بنیادی طور پر میمن برادری کے افراد رہتے ہیں۔
اس گلی میں تھوڑا دور چلنے کے بعد میں ایک اور بلاک آ پہنچا، جہاں پارسی برادری آباد ہے۔ لفظ پارسی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب فارس (موجودہ ایران) سے تعلق رکھنے والا ہے، اور پارسی برادری خود کو یہیں سے تعلق رکھنے والا بتاتی ہے۔ اگر آپ اس گلی پر تھوڑا غور کریں، تو آپ کو لفظ ایران یا ایرانی ہر دوسری دکان پر نظر آئیں گے، جیسے ایرانی بیکری، ایرانی چائے وغیرہ۔
آزادی کے بعد ابتدائی چند سالوں میں پارسی کراچی کی سب سے زیادہ بااثر اور دولتمند برادری تھی۔ انہوں نے شہر بھر میں کئی سماجی و طبی ادارے قائم کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سب سے اہم این ای ڈی یونیورسٹی اور لیڈی ڈفرن ہسپتال ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں ان کی برادری کی تعداد ہجرت اور گھٹتی شرحِ پیدائش کی وجہ سے کم ہو رہی ہے، اور زیادہ آتشکدے باقی نہیں بچے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا ایچ جے بہرانا دارِ مہر (آتشکدہ) ہے۔ غیر پارسی افراد کا مندر کے احاطے میں داخلہ سختی سے منع ہے، اور بہت منت سماجت کے بعد گارڈ اور آتشکدے کے متولی نے مجھے ویرانڈے تک آنے دیا۔ ویرانڈے کے فرش پر چاک سے بالکل ویسے ہی رنگ برنگے ڈیزائن بنے ہوئے تھے، جیسے ہندو گھروں اور مندروں میں دکھائی دیتے ہیں۔
باہری دیوار پر نظر ڈالنے پر مجھے ویسے ہی نشانات اور مجسمے دکھائی دیے جو میں نے فارس کی تاریخی جگہوں پر دیکھے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ نمایاں فراوہار تھا، جو عمارت کے سب سے اوپر بنا ہوا تھا۔
باہر سے ایک دیوار پر زرتشت کا پورٹریٹ نظر آ رہا تھا، جو کہ زرتشتی مذہب کے بانی ہیں۔
تھوڑا دور چلنے پر میں عظیم الشان لیکن بے ہنگم ایمپریس مارکیٹ کے سامنے کھڑا تھا۔
مجھے لگا جیسے میں ایک بہت بڑی مسجد کے عقب میں کھڑا ہوں۔ میں ایک نہایت متجسس شخص ہوں، اور میرا تجسس مجھے مسجد کے بیرونی دروازے تک لے گیا، جو گلی میں تھوڑا دور ہی تھا۔ قریب پہنچنے پر میں نے جانا کہ یہ داؤدی بوہرا برادری کا جماعت خانہ ہے۔ داؤدی بوہرا برادری کو شہر بھر میں ان کی امن پسندی اور مہمان نوازی کے لیے جانا جاتا ہے۔
میں داخلی دروازے تک گیا اور اندر جانے کی اجازت طلب کی۔ میں بھگا دیے جانے کے لیے بالکل تیار تھا لیکن میری توقعات کے برعکس مجھے بغیر کسی ہکچکاہٹ کے اندر جانے دیا گیا اور ساتھ میں ایک شخص کو بطور گائیڈ بھی ساتھ کر دیا گیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ جماعت خانہ طاہری مسجد کہلاتا ہے، اور یہ شہر کے سب سے بڑے جماعت خانوں میں سے ہے۔
مسجد تک جانے والا داخلی حصہ نہات عظیم الشان ہے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں دنیا بھر کی اسلامی ثقافتوں کے طرز ہائے تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ مسجد کا سب سے شاندار حصہ وہ ہے جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔ جب فانوس جلائے گئے، تو میں اس جگہ کی خوبصورتی اور بناوٹ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میرا خیال ہے کہ تصاویر خود اپنی کہانی بہتر بیان کریں گی۔
اب میرے گائیڈ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے، لہٰذا ٹور اب ختم کرنا ہوگا۔ میں نے مہمان نوازی اور مسجد کے مختصر مگر جامع ٹور کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔
اب میں سینٹ پیٹرک کتھیڈرل کی جانب بڑھ رہا تھا جو مسجد والی سڑک پر ہی ہے۔ چرچ کے آس پاس شہر کے سب سے مشہور کانوینٹ اسکول سینٹ پیٹرک اور سینٹ جوزف قائم ہیں۔
کیونکہ یہ اتوار کی دوپہر تھی، چنانچہ اسکول بند تھے اور علاقہ کافی پرسکون تھا۔ میں چند لوگوں کو چرچ سے اپنے گھروں کو واپس جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔
گیٹ پر پہنچنے پر میں نے گارڈ سے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اس نے کہا "یہ خدا کا گھر ہے، میں آپ کو کیسے روک سکتا ہوں؟"
کتھیڈرل سے پہلے جو چیز آپ دیکھیں گے، وہ سفید ماربل کی "مسیح بادشاہ کی یادگار" ہے۔ اس یادگار کے اندر ایک چھوٹا صندوق اور گوا کے بزرگ سینٹ فرانسس زیویئر کا ایک مجسمہ ہے۔
کیونکہ کراچی کی زیادہ تر کیتھولک کمیونٹی گوا سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے یہاں پر سینٹ فرانسس سے بہت عقیدت رکھی جاتی ہے۔
اپنی موجودہ صورت میں کتھیڈرل 1881 سے قائم ہے، لیکن اس جگہ پر 1845 سے چرچ موجود تھا۔ 2001 میں محمود آباد میں 5000 افراد کی گنجائش والے سینٹ پیٹرز کتھیڈرل کی تعمیر سے پہلے 1500 افراد کی گنجائش کے ساتھ یہ کراچی کا سب سے بڑا کیتھولک کتھیڈرل تھا۔
عبادت کا وقت ختم ہوجانے کی وجہ سے چرچ خالی تھا، لہٰذا میں اسے اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھ سکتا تھا۔ اندر سے چرچ نہایت وسیع و عریض تھا اور بیرونی ممالک کے گرجا گھروں کی طرح اس کی چھتیں بھی کافی اونچی تھیں۔ چرچ کے اندر رنگین شیشوں کی روایتی کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔
ایک دفعہ چرچ مکمل طور پر دیکھ لینے کے بعد میں دروازے تک آیا اور گارڈ سے پوچھا کہ رکشہ کہاں ملے گا۔ اس نے مرکزی سڑک کی طرف اشارہ کیا۔ میں فوراً ایک رکشہ میں بیٹھا اور اپنے آخری اسٹاپ سوامی نارائن مندر کی جانب روانہ ہوگیا۔
اگر ٹریفک نہ ہو، تو آپ 10 منٹ میں یہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ مین ایم اے جناح روڈ پر اس جگہ ہے جسے عام طور پر لائٹ ہاؤس کہا جاتا ہے۔ مندر ایک محرابی دروازے کے بالکل پیچھے قائم ہے، جہاں سے اندر داخل ہونے پر آپ ایک احاطے میں پہنچتے ہیں جو سرخ پتھر سے تعمیر شدہ کے ایم سی بلڈنگ کے بالکل سامنے ہے۔
سوامی نارائن مندر اسی نام کے ایک احاطے کا حصہ ہے، جس میں ہندو اور سکھ برادری کے افراد رہتے ہیں۔ یہاں موجود زیادہ تر گھر ایک صدی پرانے ہیں۔ 1947 میں آزادی کے عین بعد ہندو اور سکھ برادریوں کے کئی افراد کو یہاں پناہ فراہم کی گئی تھی۔
اس پھلتی پھولتی برادری کے لوگ اب 1947 کے خونی دنوں سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ مندر کی طرف بڑھتے ہوئے مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ اس کے ساتھ ہی ایک سکھ گردوارہ بھی موجود ہے۔ عبادت کا وقت ہونے کی وجہ سے مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
پھر میں مندر کی جانب بڑھا۔ مندر بہت خوبصورت ہے، لیکن اس کی سب سے نمایاں چیز مندر کے اوپر ہاتھ سے بنائی گئی کرشن جی کی پینٹنگ ہے، جو ان کی کہانی بیان کرتی ہے۔
مندر کے ساتھ ہی ایک وسیع میدان ہے جو میلوں اور تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ سوامی نارائن مندر کی اپنی گئوشالہ بھی ہے جہاں گائے رکھی جاتی ہیں، ان کی عبادت کی جاتی ہے، اور ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔
طرح طرح کے لوگوں کو اپنی آغوش میں بسائے ہوئے کراچی کے صدر میں کافی دیر گھومنے کے بعد مجھے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر یاد آگئی، جس میں انہوں نے برابری سے لے کر قانون کی بالادستی اور مذہب کی آزادی کے متعلق ہر چیز پر بات کی تھی۔ لیکن آج ان کی اس تقریر سے جو چیز مجھے سب سے زیادہ یاد آئی، وہ یہ تھیں:
"آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصے میں ہندو ہندو نہیں رہیں گے اور مسلم مسلم نہیں رہیں گے۔ مذہبی تناظر میں نہیں، کیونکہ یہ ہر کسی فرد کا ذاتی معاملہ ہے، بلکہ سیاسی تناظر میں، بحیثیت ریاست کے شہری کے۔"
اپنے سفر کے اختتام پر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ یہ کہ اس علاقے کا ہر مذہبی گروہ اپنی روز مرہ کی زندگی اور اپنی عبادات بغیر کسی کشیدگی کے انجام دیتا ہے۔
اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ پارسی ہوں، یا سکھ، ہندو، عیسائی، یا مسلم۔ عقیدہ سیاسی نہیں بلکہ ایک ذاتی ترجیح ہے جسے یہ سب لوگ سمجھتے ہیں اور اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ ریاست کے شہری ہیں، اور منفرد اور خوبصورت پاکستانی ہیں۔
— تصاویر بشکریہ لکھاری۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.
ایم بلال حسن پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، جنہیں سفر کرنا اور گھومنا پھرنا پسند ہے. انہیں انسٹاگرام پر یہاں فالو کریں، جبکہ ان کا ای میل ایڈریس bilalhassan4688@gmail.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔