اصلی طلباء کی جعلی ریسرچ
پاکستان کے معاشرے میں اذہان کی نشوونما میں مذہبی رجحانات، سیاسی اُتار چڑھاؤ اور ثقافتی روایات کے گہرے نقوش موجود ہیں۔ سماج جب ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اس کا ذہنی مزاج اور فکری پختگی ان تینوں شعبوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ نظریات سماج کی ترقی اور اس کی خوشحالی کی ضمانت ہوتے ہیں، انفرادی و اجتماعی سوچ، علم کا حصول اور جدید تعلیمی نظریات بھی اسی سماج کے ساتھ ساتھ اُبھرتے ہیں۔
اگر نظریات پسماندہ اور سطحی ہوں گے تو پھر اس سے نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوں گے۔ معاشرے میں شدت پسندی، لبرل ازم یا جدت پسندی سماج میں پنپنے والے نظریات کی ہی مرہون منت ہوتی ہے۔ جدید دور میں علم کے پھیلاؤ کا مرکز جامعات ہیں اور ان جامعات کی سرپرستی ریاست براہ راست کرتی ہے۔ پاکستان اپنے قیام سے اب تک کی سات دہائیوں سے علم کے بحران سے گزر رہا ہے۔
ان دہائیوں میں نو تعلیمی پالیسیاں آئیں لیکن تعلیم کے شعبے کے لیے مختص اہداف آج تک حاصل نہیں کیے جاسکے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں پاکستان میں سب سے بڑی ایجاد "ہائیر ایجوکیشن کمیشن" کی ہے جس نے ملک میں لاوارث اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو اپنی گود میں لیا اور نئے اہداف طے کیے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی جامعات میں پاکستانی طلباء اور اساتذہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے لیے بھیجا گیا، یونیورسٹیوں میں مقابلے کی فضاء قائم کرنے کے لیے درجہ بندی کا فارمولا طے ہوا، اور یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق میں چربہ سازی، یعنی پہلے سے شائع شدہ مواد کو چوری کر کے اپنے نام سے چھپوانے کے رجحان کو قابو میں لانے کے لیے میکانزم بنایا گیا جس سے پاکستان میں علم کی چوری کا رواج کم ہونے لگا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے ضوابط طے کیے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی میں ہونے والی تحقیق میں پہلے سے شائع شدہ مواد کا درست حوالہ دیا جائے اور نئی ہونے والی تحقیق میں پہلے سے چھپے ہوئے مواد کا صرف 19 فیصد ہی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ایچ ای سی نے جب یہ قدغن لگائی تو اعلیٰ تعلیم میں تحقیق کے معیار میں کُچھ بہتری آئی لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے شاید پاکستانی قوم کے مزاج کے رجحانات نہیں تھے۔
ٹرنیٹن نام کے اس سافٹ ویئر سے انگریزی زبان کا سہارا لے کر تحقیق کرنے والوں کی تو پکڑ ہوگئی لیکن اُردو زبان میں ہونے والی تحقیق کی جانچ پڑتال کرنے کا سافٹ ویئر آج تک نہیں ایجاد ہوسکا۔ میرے خیال میں انگریزوں کی زبان اگر اُردو ہوتی تو وہ اس زبان کی مدد سے ہونے والی علم کی چوری کو پکڑنے کا بھی فارمولا دریافت کر لیتے۔ پاکستان کی سرکاری و نیم سرکاری جامعات میں اُردو، فارسی، عربی، اسلامیات، اور سماجی علوم کے دیگر شعبوں میں جتنی بھی تحقیق ہو رہی ہے، اس میں علم کی چوری یا پھر چربہ سازی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس میں اُردو زبان میں پہلے سے شائع شدہ مواد کو چوری کر کے اپنی تحقیق کا بغیر کسی حوالے کے حصہ بنایا گیا۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے تمام پی ایچ ڈی اور ایم فل تھیسز کے معائنے کروانے کا نظام وضع کرے۔ پاکستان کو علم کے شعبے میں پسماندہ رکھنے میں سیاستدان تو قصوروار ہیں ہی لیکن یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ان کے طلباء بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے حالیہ دنوں میں چربہ سازی کیس میں پکڑے جانے والے اساتذہ کی فہرستیں اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہیں۔ اس کے باوجود علم کی چوری کے جدید طریقے بھی پاکستان کی جامعات میں زیرِ تعلیم طلباء اور ان کے اساتذہ نے ہی دریافت کیے ہیں۔ پہلے سے شائع شدہ علمی مواد کو اپنی تحقیق کا حصہ بنانا ہے تو پیراگراف میں الفاظ کا ہیر پھیر کر کے کسی دوسرے کے خیال کو اپنے نام سے چھاپ دو، اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر بہت سارے محقیقین گوگل ٹرانسلیٹر کا سہارا لے کر دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے مواد کو انگریزی زبان میں بدل کر اپنے نام سے شائع کردیتے ہیں، ان جعلی محققین کی اس چالاکی کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا فراہم کردہ سافٹ ویئر بھی نہیں پکڑ سکتا۔
پاکستان میں ہر سال سینکڑوں پی ایچ ڈی اسکالرز ڈگریاں لے کر تعلیمی شعبے سے وابستہ ہو رہے ہیں۔ صرف پنجاب یونیورسٹی میں اس کی تعداد سالانہ ایک سو دس سے بڑھ گئی ہے لیکن پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود نئے خیالات، تصورات، نظریات، ایجادات کا فقدان ہے، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباء، اسکالرز اور اساتذہ کی ذہنی نشوونما جس طرح کے تعلیمی ماحول میں ہو رہی ہے اس سے صرف چربہ ساز اسکالرز ہی پیدا ہوں گے جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا ہے۔
علم پر مبنی معیشت کے جو مغربی تصورات ہیں، پاکستان کی جامعات میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہو رہا بلکہ پرائیوٹ یونیورسٹیاں ڈگریاں فروخت کرنے کا ایسا کاروبار کر رہی ہیں جس سے صرف بے روزگار نوجوانوں کی کھیپ تیار ہورہی ہے۔ نالج اکانومی کا مرکز یونیورسٹیاں بنتی ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ یا تو لائبریریوں کے کونے کھدروں میں ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے یا پھر کاغذوں کے اس بے فائدہ ڈھیر پر دیمک حملہ آور ہو جاتی ہے۔ پڑھنے لکھنے سے دوری کا مرض ہماری قوم کی جڑوں میں پیوست ہوگیا ہے، علم سے بیزاری اور راہ فرار اختیار کرنے کا آغاز اسکول سے ہی ہوجاتا ہے جو کالج میں لڑکپن اور پھر یونیورسٹیوں میں جا کر طلباء کی ذات کا جزو بن جاتا ہے۔
یونیورسٹیوں کے اساتذہ جو تحقیق کرتے ہیں وہ صرف اپنی پروموشن کی خاطر، طلباء جو تحقیق کرتے ہیں وہ صرف اپنی ڈگری کو مکمل کرنے کے لیے۔ پاکستان علم کے شعبے میں اُس وقت تک پستی میں رہے گا جب تک علم کے میدان میں بد دیانتی کا عنصر غالب رہے گا۔ یونیورسٹیوں کے پروفیسرز کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ریسرچ کرنے والے طلباء کی سرپرستی کریں، اساتذہ کو محض یونیورسٹیوں میں اپنی نوکری کے تحفظ کے لیے ہی نہیں بلکہ اس قوم کے تحفظ کے لیے متحرک ہونا ہوگا، علم کے شعبے میں ترقی کے لیے اساتذہ اور طلباء دونوں کو ہی آرام پرستی کے بتوں کی پوجا کو ترک کرنا ہوگا۔
سائنس کے شعبے میں نئی ایجادات ہوں یا پھر سماجی علوم میں معاشروں کے سلگتے مسائل کو حل کرنے کے تصورات ہوں، یہ صرف اُس سماج میں پیدا ہوتے ہیں جہاں پر محنت، دیانتداری، لگن، جستجو، فکر ہو۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے تحقیقی مقالوں اور طلباء کے ریسرچ تھیسز لکھنے کے ضوابط کو مزید سخت کرنے کے لیے نئے سافٹ ویئرز بنانا ہوں گے اور پاکستان کو نالج اکانومی کی طر ف لے کر جانے کے لیے ان یونیورسٹیوں کے سربراہان پر سختیاں کرنا ہوں گی۔
چوری شدہ مواد کو پکڑنے کے لیے سافٹ ویئرز میں بہتری لانا اور پھر طلباء کو دیے جانے والے موضوعات پر تحقیق کے معیار کو جانچنے کا میکانزم بنانا ہوگا۔ خاص طور پر ایم اے ایم ایس سی کی سطح پر جو تحقیق ہورہی ہے یہ نہ صرف کاغذوں کا ضیاع ہے بلکہ یہ کاغذ صرف ردی کے ٹکڑے ہیں۔ ان کی بناء پر ترقی کا خواب دیکھا تو جا سکتا ہے لیکن پورا کبھی نہیں کیا جا سکتا۔
اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں akmalsoomroCNN@
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akmal.soomro@hotmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔