سوشل میڈیا پر شرمناک حرکتیں
مداری نے چلا چلا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا: "ایسا پرندہ جس کے سر پر پاؤں ہیں!"۔ بھیڑ تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ لوگ اکٹھے ہو گئے تو اس نے اپنا منجن بیچنا شروع کردیا۔ ایسے مجمعے آپ نے جگہ جگہ دیکھے ہوں گے۔ لاہور اردو بازار سے داتا دربار کی جانب جائیں تو سانڈوں کا تیل بیچنے والے ریچھ کی تصاویر کا تذکرہ کر کے لوگوں کو متوجہ کرتے پائے جاتے ہیں.
مداریوں کے ان گروں سے ہماری اکثریت آشنا ہے مگر پھر بھی وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ
وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا
ان کہانی گروں کی باتوں میں ایسی چاٹ ہوتی ہے کہ لوگ رک کر ٹھہر کر ان کی بات سنتے ہیں۔ لوگوں کو تجسس کی لاٹھی سے ہانک کر آپ کسی بھی مجمع کا حصہ بنا سکتے ہیں، لیکن کہانی گری اور مداری پن کا جو آغاز ویب جرنلزم کے آنے سے ہوا ہے، وہ اس درجہ بازاری ہے کہ پڑھنے لکھنے سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والے پریشان ہیں کہ ہمارا میڈیا ہمیں کیا دکھائے جا رہا ہے۔
صحافی، اخبار لکھنے والے، ادیب، اور شاعر کسی بھی قوم کے حساس ترین لوگ ہوتے ہیں، جو پھول کو بھی پتھر کی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ لوگوں کو سوچ اور راستہ دیتے ہیں۔ جب قوم کسی گمراہی کی طرف گامزن ہو تو ان کی یہ آواز لوگوں کو آنے والے خطروں سے خبردار کرتی ہے۔ مگر سوشل میڈیا کے سونامی نے صحافتی اقدار کو ناقابلِ تلافی زک پہنچائی ہے۔ پاکستان کے بڑے اخباروں میں سے ایک نے چند دن قبل ایک سہاگ رات کی خبر کو بھی کوریج بخشی، جس میں دلہن نے دلہا میاں کی پسلیوں پر لاتیں برسائیں۔ اور جب یہی خبر چٹپٹے مصالحے دار اخباروں کے ہاتھ چڑھتی ہے تو ویب ٹریفک کے بہاؤ کو اپنی طرف لانے کے لیے اس خبر کا رنگ کچھ ایسا ہو جاتا ہے۔
دلہن نے پہلی رات دلہا کو ایسا کیا کردیا کہ دنیا کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا: تفصیلات لنک میں
یا پھر
سہاگ رات میں دلہا کی پسلیاں ٹوٹ گئی مگر کیسے؟ تفصیلات لنک میں
یا پھر
سہاگ رات میں کیا کیا ٹوٹ گیا، ایک سچی کہانی: تفصیلات لنک میں
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بڑی نیوز ویب سائٹ کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ "اس ویب سائٹ والوں کے ہاں بیٹا پیدا ہوا، نرس نے آ کر مبارکباد پیش کی اور کہا مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں۔"
پڑھیے: میڈیا کے چٹخارے
عام سی خبروں میں ایک خاص قسم کی سنسنی پیدا کرنے کے لیے ایسے جملوں کا بکثرت استعمال ہوتا ہے۔
ایسی خبر جس کو سن کر آپ کے پیروں تلے سے زمین نکل جائے گی
ایسی خبر جو تاریخ میں پہلے نہ سنی ہو گی
ایسا کام جو کسی نہ کیا ہو گا
غیر ملکی اخبارات سے بھی یہ ظالم ایسی خبریں ہی اٹھاتے ہیں جن کا مقصد سوائے ڈگڈگی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایسی خبریں جب یہ اردو ویب سائٹس اٹھاتی ہیں، تو ان کا حلیہ کچھ یوں ہوجاتا ہے:
قوانزھو میں شادی کے نام پر انسانیت سے گری حرکتیں
کاشی میں شراب نوشی کا مقابلہ، بیہودگی اپنی انتہاء پر
برازیل میں حیا باختہ عورتوں کا اجتماع، انسانیت شرمندہ
کینیڈا میں لباس سے عاری حوا کی بیٹیاں، سر شرم سے جھک گئے۔
ان تمام خبروں کے گرافکس پر جیسے ہی کلک کر کے ویب سائٹ تک پہنچا جاتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل خبر کچھ اور تھی، جبکہ سوشل میڈیا پر کچھ اور، تاکہ لوگ صرف تجسس کا شکار ہو کر کلک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
میرے بھائی جانتے ہو تم کیا ہو اور کیا کر رہے ہو؟ تم ایک ادبی دہشت گرد، صحافت کے نام پر تہمت، اور ادب کے نام پر ایک داغ ہو۔
مزید پڑھیے: میڈیا کا آئی ٹیسٹ
باہر کی دنیا سے علمی، ثقافتی اور قابلِ تقلید عادات، واقعات اور حالات کا ذکر کرو۔ ان کے محاسن بتا کر عمل پیروی کی طرف رغبت دو، اور کسی اچھی سوچ کو پنپنے میں مدد کرو۔ یہ کیا بیہودگی اور لچر پن لکھ رہے ہو؟ یہ نہ ہی سنسنی ہے، نہ ہی خبر ہے، نہ ہی کوئی اچھوتی معلومات ہے اور نہ ہی کسی آگہی کی طرف پیش رفت۔ بلکہ یہ صرف اور صرف تمہارے ذہن کا گند ہے جسے تم سوشل میڈیا اور صحافت میں پھیلا کر اس تالاب کے اجلے پانی کو گندا کر رہے ہو۔
اکثر آن لائن اخبارات جو رپورٹنگ اور صحافت کر رہے ہیں وہ جرنلزم کی کسی قسم میں بھی نہیں آتی۔ میرے خیال میں یہ ایک نئی قسم ہے جسے "اسٹوپڈ جرنلزم/رپورٹنگ" کا نام دیا جا سکتا ہے۔
ریپ کی شکار لڑکی کو اسقاطِ حمل کی اجازت نہ ملی، چنانچہ اسے زیادتی کے نتیجے میں ہونے والے بچے کو جنم دینا پڑا، لیکن سوشل میڈیا پر خبر ایسے چلائی گئی جیسے کہ یہ غیر اخلاقی حرکت 11 سالہ بچی نے برضا و رغبت کی ہو.
انتہائی احتیاط سے منتخب الفاظ کی چاشنی کی بجائے بازاری مصالحوں کی کھٹاس سے سارا مزا کرکرا کرنے والوں سے کوئی پوچھنے والا بھی ہے کہ نہیں؟ ابھی چند روز قبل وسیم اکرم صاحب کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا، سوشل میڈیا پر پہلا تاثر یہ پھیلا کہ شاید یہ کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہے، جب کہ ٹریفک میں کسی کا غصہ میں آجانا بیانات سے بالکل باہر کردیا گیا۔
حقائق سے کوسوں دور اس معاملے کو حقیقت بنا کر پیش کرنے میں ہمارے آن لائن اخبارات پیش پیش تھے، اور اس میں وسیم اکرم کے اپنے تردیدی بیانات کو بھی توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تاکہ خبر کو مزید سنسنی خیز بنا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی ویب سائٹ تک لا کر پیسے کمائے جائیں۔
یہ بات بالکل قابلِ فہم ہے کہ آج کے دور میں جب ایک ویب سائٹ کی کمائی مکمل طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ اس ویب سائٹ کو کتنے لوگ وزٹ کرتے ہیں، لہٰذا انوکھی و اچھوتی چیزیں اپنی ویب سائٹس پر شائع کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا جائز ہے۔ لیکن ان اچھوتی اور انوکھی چیزوں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے جس طرح کی سرخیوں اور الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے، وہ کسی بھی طرح صحافتی اقدار کے مطابق نہیں، بلکہ قابلِ مذمت ہے۔
ایک خبر جو افریقی ملک برونڈی کے سابق آرمی چیف کے قتل کے متعلق تھی، اس میں شخصیت کے چہرے کو چھپا کر سرخی کچھ اس طرح دی گئی، کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کلک کر بیٹھیں.
آپ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کی ویب سائٹ تک آئیں، تو آپ اپنے مواد کو معیاری بنائیں، بازاری کیوں بناتے ہیں؟ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چٹپٹے سوشل میڈیا گرافکس اور مصالحے دار سرخیاں شاید دیکھنے میں بے ضرر لگتی ہوں، لیکن یہ چیزیں غیر محسوس انداز میں لوگوں کی ذہنیت پر نظرانداز ہوتی ہیں۔ صحافت کبھی رائے عامہ کی درستی اور عوام کو آگاہ کرنے کا نام ہوا کرتا تھا لیکن ان ویب سائٹس نے تو صحافتی اقدار کو دفن کر کے رکھ دیا ہے۔
پڑھیے: پاکستانی چینلز کی بناکا گِیت مالا ہیڈ لائنز
مجھے امید ہے کہ ان اخبارات کے دفاتر میں کوئی تو سوچنے والے لوگ موجود ہوں گے، پاکستانی اسٹیج ڈرامہ جیسے اپنی موت مرا تھا، کیا ایسے ہی اخبارات دم توڑنے والے ہیں؟ کہیں تو کوئی حد مقرر کرنا ہوگی، غیرملکی خبروں میں سے اچھی خبروں کا انتخاب بھی تو کیا جا سکتا ہے، صرف سستی اور گھٹیا خبریں ہی کیوں؟
صرف اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ کلکس ملیں، پھر بھلے ہی اس سے گندی ذہنیت کی آبیاری ہو، اور عوام میں مزید کوفت پھیلے؟ صحافت نے کئی دہائیوں کی آمریت، پابندیوں، اور سینسرشپ سے کیا اس دن کے لیے آزادی حاصل کی تھی؟ آئیں جواب جاننے کے لیے کسی نہ کسی لنک پر کلک کرتے ہیں۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل مالمو، سویڈن میں رہائش پذیر ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: ramzanblog.انہیں یوٹیوب پر سبسکرائب کریں Aazadtv.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔