'چندہ دے کر ثوابِ دارین حاصل کریں'
ہمارے ہاں آفت کو پیسہ کمانے کا ذریعہ بنانا کوئی ناقابلِ یقین امر نہیں رہا ہے۔ ہم نے ہر واقعے کو پیسے پر تولنے اور پیسہ بنانے کا ذریعہ بہت پہلے بنایا ہوا ہے۔ ہم بظاہر خدا ترس اور محسن انسانیت بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے اندر کا شیطان ہمیں اس حد تک گرا چکا ہے کہ ہمیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہا۔ اجتماعی طورپر ہم کسی کو اچھا کام کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کے بجائے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم کسی نمازی کی نماز کو بھی کسی لالچ سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم کسی کی دی ہوئی خیرات کو بھی کسی منصوبہ بندی سے منسلک کرنے کی روایت پر قائم ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہمارے پاس شاکی رہنے، اعتماد نہ کرنے، اور ہمیشہ الٹ سوچنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
سن 2010ء اور پھر یکے بعد دیگرے ہر سال پاکستان میں سیلاب آنے کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی سال پاکستان میں سیلابی صورتحال کو رپورٹ کرتے ہوئے ایک مغربی اخبار نے لکھا کہ پاکستان کے کشمیر سے سندھ و بلوچستان تک کی سیلاب سے متاثرہ آبادی پورے یورپ کی آدھی آبادی سے زیادہ ہے، جبکہ رقبے کے لحاظ سے ایک چوتھائی یورپ جتنا رقبہ زیرِ آب آگیا تھا۔
کہتے ہیں کہ مذکورہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کے منصوبہ سازوں کو اپنے اہداف نئے سرے سے متعین کرنا پڑے۔ پاکستان کا نقشہ جس میں مستقبل کی سڑکیں، ریلوے لائنیں اور دیگر مواصلاتی اور روابط کی منصوبہ بندیاں ہوئی ہیں کو دوبارہ ترتیب دینے کی سوچ تک پیدا ہوگئی تھی۔ آفت کی شدت کا پیمانہ اس حد کو پہنچ چکا تھا مگر دنیا نے ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔ پہلے پہل ریلیف کے لیے دنیا نے لبیک کہا، پھر بحالی کے لیے اپنے خزانوں کے منہ ہمارے لیے کھول دیے گئے۔ بس یہیں سے ہمارے ایمان کا امتحان شروع ہوگیا۔
پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی تھے۔ ان کے دور میں ترک خاتون اول نے سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے جو ہار عطیہ کیا تھا، وہ کہاں گیا، اس سے متاثرین کی امداد کتنے بہترین انداز میں کی گئی، اور وہ کس طرح مقدمے و گرفتاری سے بچنے کے لیے ایف آئی اے کو واپس کیا گیا، یہ سب باتیں زیادہ پرانی نہیں اور ضرور یادداشتوں میں محفوظ ہوں گی۔
آفات چترال کے لیے بھی نقدی لانے کا سبب رہی ہیں، اور چند مقامی بابو خوب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیگر لوگ پاک و صاف ہیں۔ چند استثناء چھوڑکر ہم سب کا دھیان اپنی کمائی پر ہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر آفس کی مثال کیا دیں، آپ تھوڑی تاخیر سے دیر اڈہ پہنچ جائیں اور کسی چترالی ڈرائیور سے ہی کرایہ پوچھ لیں۔ کسی کی مجبوری سے مال کس طرح بنایا جاتا ہے، پتا لگ جائے گا۔ ہم پہلے ہی رپورٹ کر چکے ہیں کہ بونی چترال روڈ پر کابلی گاڑیوں کی ادھڑی نشستوں پر براجمان یہ ڈرائیور فنڈز میں خردبرد کرنے والے ان بابوؤں سے کسی بھی زاویے سے کم نہیں ہیں۔
چترال کے حالیہ سیلاب کو بھی بہت سے لوگ للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو اس سے پیشتر اپنے بھائی بہنوں کی کالج فیس بھی ادا کرنے سے گریزاں مشہور تھے، آج پشاور اور اسلام آباد کی سڑکوں پر متاثرین کے مسیحا کا روپ دھارے بیٹھے ہیں۔ چترال سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں قائم دو کیمپوں کے منتظمین کے لیے قسمیں کھائیں گے کہ وہ سابقہ کسی آفت کے موقع پر زندہ ہونے کے باوجود اتنے سرگرم نہیں تھے۔
کیا ریلیف کا سامان اکٹھا کرنے کا کام کسی قاعدہ قانون کے دائرے میں آتا ہے یا گمنام تنظیموں اور مدرسوں کے چندہ بازوں کی طرح یہاں بھی کھلا میدان ہے؟ کیا حکومتی عمال کو ان سے دستاویزات نہیں مانگنی چاہیئں؟ متاثرین کے نام پر جو بھی رقم اکھٹی ہوگی اس کا ریکارڈ کون رکھے گا، اس کا کتنا حصہ متاثرین تک پہنچے گا، نہ پہنچنے کی صورت میں کون سا ادارہ اسے یقنی بنائے گا کہ رقم واگزار کی جائے، کیا ایسے افراد کی کوئی رجسٹریشن ہوتی ہے، کیا ان سے کوئی ضمانت لی جاتی ہے، وہ کس کے کہنے پر اپنا وقت دے رہے ہیں، اس سے قبل وہ کہاں تھے، کیا کررہے تھے، انہوں نے اس سے پہلے کونسا خیراتی کام کیا ہے۔ ان سوالات کا ہر ذہن میں جنم لینا فطری ہے کیونکہ سیلاب سے متاثر ہونا اگر ہمارے اختیار میں نہیں تھا تو کم از کم متاثرین کے نام پر کسی کو مال نہ بنانے دینا تو ہمارے اختیار میں ہے۔
یاد رہے چترال میں اس قسم کی چندہ کشی سے کسی کو کچھ فائدہ نہیں ہونے والا۔ چترال میں زیادہ تر سڑکیں اور بجلی گھر متاثر ہوئے ہیں۔ اس چندے سے نہ سڑکیں ٹھیک ہوسکتی ہیں اور نہ یہ اس مقصد کے لیے اکھٹا کیا جا رہا ہے، مختلف خیراتی اداروں جیسے الخدمت، مسلم ایڈ، فوکس، فوج اور انتظامیہ کے پاس بے گھر متاثرین کے لیے خوراک اتنی جمع ہوچکی ہے کہ اسے سنبھالا نہیں جارہا۔ مسئلہ صرف نقل وحمل میں درپیش ہے۔ ایسے میں متاثرین کو بھوکا، ننگا پیش کر کے چندے بازوں کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔
مخیر لوگ انسانیت کے نام پر ایسے کیمپوں پر ضرور جاتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق تعاون کرتے ہیں، ان کے پاس ان ڈرامہ بازوں کی تصدیق وغیرہ کے لیے نہ وقت ہوتا ہے اور نہ کوئی ذریعہ۔ لہٰذا یہ صرف اور صرف سرکاری اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ایسے لوگوں کی جانچ پڑتال کو یقینی بنائیں، وگرنہ یہ بھی معاشرے کا ایک ناسور بن جائے گا۔
عید قربان کی کھالوں کو جمع کرنے پر شروع وقت میں ہی نظر رکھی جاتی تو یہ اسلامی فریضہ (خصوصاً کراچی میں) میں ادا کرنا مسلمانوں کے لیے وبال جان نہ بن جاتا۔ اس کاوش کا مقصد یہ بھی ہے کہ آفت کو کیش کرنے کے سلسلے کو یہی روکا جائے ورنہ کل کو یہ بھی قربانی کی کھالوں پر خونی جھگڑوں کی صورت اختیار کرے گا۔
اعجاز احمد غیر سرکاری تنظیم فورم فار لینگوئیج انیشی ایٹوز (FLI) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: EjazAhmed36@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔