مشاہد اللہ نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھیج دیا، پرویز رشید
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے ماحولیات مشاہد اللہ کو سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) جنرل ظہیر اسلام سے متعلق بیان کے بعد بیرون ملک سے واپس طلب کر لیا گیا ہے.
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے مشاہد اللہ خان واپس طلب کیے جانے کی تصدیق کر دی۔
مشاہد اللہ خان کا بیان : "سابق آئی ایس آئی چیف نے حکومت ہٹانے کی سازش کی"
نجی ٹی وی چینل جیو سے گفتگو میں پرویز رشید نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر سینیٹر مشاہد اللہ کو مالدیپ سے واپس بلایا گیا۔
ڈان نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان دورے پر آج ہی مالدیپ روانہ ہوئے تھے، انہوں نے مالدیپ میں 3روزقیام کرنا تھا.
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے مشاہد اللہ کو فوری وطن واپس پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹر مشاہد اللہ خان نے استعفیٰ وزیر اعظم ہاؤس ارسال کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مشاہد اللہ خان نے مالدیپ سے ای میل کے ذریعے وزیر اعظم کو استعفیٰ بھجوایا.
خیال رہے کہ وزیر اعظم نے وفاقی وزیر سے متنازع انٹرویو کے بعد گزشتہ روز وضاحت طلب کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: جنرل ظہیر پر الزام، پی ٹی آئی کا کارروائی کا مطالبہ
مشاہد اللہ خان سے وفاقی وزارت برائے ماحولیات کا قلمدان واپس لینے کا فیصلہ وزیر اعظم نواز شریف کریں گے۔
|
واضح رہے کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر مشاہد اللہ نے دعوی کیا تھا کہ آئی ایس آئی سربراہ جنرل ظہیرالسلام عباسی کی اس سازش کا مقصد بد امنی اور افرا تفری پھیلانا تھا۔
’سابق انٹیلی جنسی سربراہ کی ریکارڈ ہونے والی ٹیلی فون گفتگو میں وہ بتاتے رہے کہ کس طرح بے امنی پھیلانی اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے‘۔
مشاہد اللہ کے مطابق، یہ ٹیلی فونک گفتگو وزارت داخلہ کی ماتحت سول انٹیلی جنس ایجنسی آئی بی نے ریکارڈ کی تھی۔
سینیٹر نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم نے یہ ٹیلی فونک گفتگو 28 اگست، 2014 کو ایک ملاقات میں فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو سنوائی۔
’اس پر جنرل راحیل نے جنرل ظہیر کو فوراً طلب کرتے ہوئے ریکارڈنگ سنوائی اور پوچھا کہ آیا یہ آواز ان کی ہے ؟ جنرل ظہیر کے تصدیق کرنے پر انہیں ملاقات سے چلے جانے کو کہا گیا‘۔
سینیٹر نے بتایا کہ حکومت کو دوسرے ذرائع سے ملنے والی رپورٹس سے پتہ چلا کہ اس سازش کے ’خونی اور تباہ کن نتائج‘ برآمد ہونا تھے۔
’یہ سازش نا صرف نواز شریف کی حکومت بلکہ فوجی سربراہ کے خلاف بھی تھی۔ اس سازش کا مقصد وزیر اعظم اور جنرل راحیل کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا تھا تاکہ وزیر اعظم جنرل راحیل کے خلاف کارروائی کریں اورپھر کچھ لوگ ایکشن میں آ جائیں‘۔
مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر مشاہد اللہ کے انٹرویو کے کچھ گھنٹوں بعد وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور پھر فوج کے ترجمان ادارے انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایسی کسی سازش کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔