سابق آئی ایس آئی چیف پر الزام، پی ٹی آئی کا کارروائی کا مطالبہ
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کسی سازش میں ملوث تھے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی کابینہ کے رکن وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام پر الزام عائد کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ نے منتخب حکومت کو ہٹانے کی سازش کی تھی۔
مشاہد اللہ کا بیان : ’سابق سربراہ آئی ایس آئی نے حکومت ہٹانے کی سازش کی‘
پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے مزید کہا کہ کابینہ کے وزیر نے سابق آئی ایس آئی کے سربراہ پر سازش کرنے کا الزام لگایا ہے. اگر آئی ایس آئی کے سربراہ کسی سازش کا حصہ تھے تو ساتھیوں سمیت ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے
اسد عمر نے یہ بھی کہا کہ اگر وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ مشاہد اللہ جھوٹ بول رہے ہیں جبکہ ان کے الزامات بھی غلط ہیں تو مشاہد اللہ کو وزارت سے الگ کرکے ان کے خلاف کارروائی کریں۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ اس سے پہلے وزیر دفاع بهی آئی ایس آئی کے سربراہ پر غداری اور سازش کے الزامات لگا چکے ہیں، وزیر اعظم معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کریں۔
انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ بھی کیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات غلط ثابت ہونے پر وزراء کو فارغ کیا جائے
انہوں نے حکومت پر تنقید کی کہ ملک میں ایک تماشا تسلسل کے ساتھ جاری ہے، گڈ کوپ، بیڈ کوپ کا ڈرامہ جاری نہیں رکھ سکتے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر مشاہد اللہ نے دعوی کیا کہ آئی ایس آئی سربراہ جنرل ظہیرالسلام عباسی کی اس سازش کا مقصد بد امنی اور افرا تفری پھیلانا تھا۔
’سابق انٹلی جنسی سربراہ کی ریکارڈ ہونے والی ٹیلی فون گفتگو میں وہ بتاتے رہے کہ کس طرح بد امنی پھیلانی اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے‘۔
مشاہد اللہ کے مطابق، یہ ٹیلی فونک گفتگو وزارت داخلہ کی ماتحت سول انٹلی جنس ایجنسی آئی بی نے ریکارڈ کی تھی۔
سینیٹر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وزیر اعظم نے یہ ٹیلی فونک گفتگو 28 اگست، 2014 کو ایک ملاقات میں فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو سنوائی۔
’اس پر جنرل راحیل نے جنرل ظہیر کو فوراً طلب کرتے ہوئے ریکارڈنگ سنوائی اور پوچھا کہ آیا یہ آواز ان کی ہے ؟ جنرل ظہیر کے تصدیق کرنے پر انہیں ملاقات سے چلے جانے کو کہا گیا‘۔
سینیٹر نے بتایا کہ حکومت کو دوسرے ذرائع سے ملنے والی رپورٹس سے پتہ چلا کہ اس سازش کے ’خونی اور تباہ کن نتائج‘ برآمد ہونا تھے۔
’یہ سازش نا صرف نواز شریف کی حکومت بلکہ فوجی سربراہ کے خلاف بھی تھی۔ اس سازش کا مقصد وزیر اعظم اور جنرل راحیل کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا تھا تاکہ وزیر اعظم جنرل راحیل کے خلاف کارروائی کریں اورپھر کچھ لوگ ایکشن میں آ جائیں‘۔
مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزیر مشاہد اللہ کے انٹرویو کے کچھ گھنٹوں بعد وزیر اعظم سیکریٹریٹ اور پھر فوج کے ترجمان ادارے انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایسی کسی سازش کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔