ایم کیو ایم کیوں مستعفی ہوئی!
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان پارلیمنٹ کا مستعفی ہونا اسلام آباد کیلئے غیر متوقع نہیں تھا۔
یہ بدھ کی دوپہر سپیکر کے چیمبر میں آنے والے ایم کیو ایم ارکان کا بغیر سوچے سمجھے ، آخری لمحات میں کیا گیا فیصلہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں : متحدہ قومی موومنٹ اسمبلیوں سے مستعفی
در حقیقت ایم کیو ایم کے ارکان قومی اور سندھ اسمبلی نےاس آپشن پر کوئی نجی بحث بھی نہیں کی۔
منگل کو رات گئے اسلام آباد کی پارلیمنٹ لاجز میں موجود قومی اسمبلی اور کراچی میں سندھ اسمبلی کے ارکان، رابطہ کمیٹی اور امریکا میں کچھ پارٹی رہنما ایک اہم اجلاس میں شریک ہوئے۔
اس موقع پر لندن سے ایم کیو ایم قائد الطاف حسین نے کراچی ، اسلام آباد اور امریکا میں بیٹھے اجلاس کے شرکا سے ٹیلی فونک گفتگو کی اور ساتھیوں کے بذدلی اور دھوکہ دینے پر خوب برسے۔
مزید پڑھیں : ضمنی انتخاب:'فیصلہ رابطہ کمیٹی کرے گی'
اجلاس کے شرکا نےالطاف حسین کی ناراضی ختم کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی تو ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب پارٹی قائد نے پیشکش منظور کرتے ہوئے فون پٹخ دیا۔
ذرائع کے مطابق، ناراض الطاف حسین کا خیال ہے کہ پارٹی رہنماؤں نے قومی اسمبلی میں ان کا دفاع نہیں کیا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی 10 اگست کی تقریر میں الطاف حسین کو مسئلہ کی جڑ قرار دیا تھا۔
منگل کی رات ایم کیو ایم قائد نے اپنی تقریر میں خاص طور پر سینیٹر ڈاکٹر فروغ نسیم، رؤف صدیقی اور فیصل سبزواری کو ’دھوکہ‘ دینے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے بار بار پارٹی رہنماؤں سے کہا کہ اگر وہ ’ایم کیو ایم کے خلاف جاری مظالم ‘ پر آواز نہیں اٹھا سکتے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں۔
اجلاس میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ ایم کیو ایم کے ایک سے زائد رہنماؤں نے ڈان کو بتایا کہ اس موقع پر اجلاس میں شامل ایک غیر منتخب رہنما نے تجویز دی کہ پارٹی کو قومی اسمبلی ، سینیٹ اور سندھ اسمبلی سے الگ ہو جانا چاہیئے۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے تجویز کی تائید پر غصے میں بھپرے الطاف حسین نے یہ کہتے ہوئے فون پٹخ دیا کہ پارلیمنٹیرین جو دل میں آئے کریں۔
اس پر ایم کیو ایم پارلیمنٹیرینز کے پاس استعفے لکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا اور کراچی، لندن اور امریکا میں موجود رابطہ کمیٹی کے ارکان نے استعفے منظور ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کر نا شروع کر دیا۔
بدھ کی صبح الطاف حسین نے مستعفی ہونے کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے ارکان کو استعفے جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
تاہم، کچھ ایم کیو ایم رہنما نجی طور پر اس وقت پارلیمنٹ کو خیر آباد کہنے کے حق میں نہیں، بالخصوص اس صورت میں جب الطاف حسین خود 1993 میں الیکشن بائیکاٹ کے فیصلے کو غلط قرار دے چکے ہیں۔
حتی کہ بدھ کو فاروق ستار کے بیان میں کچھ حلقوں نے ہچکچاہٹ محسوس کی کیونکہ کچھ نیوز چینلز کی جانب سے استعفی منظور ہونے کی خبر چلنے پر ستار نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے استعفوں کے معاملہ پر حکومت کی پالیسی مختلف ہے۔
منگل کی رات اجلاس میں شریک ایم کیو ایم کے ایک سینئر رہنما نے کہا ’الطاف حسین کے فیصلہ کی سب تائید کرتے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ آج کل مائنس الطاف فارمولے اورایم کیو ایم کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دینے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن اب استعفے منظور ہونے کی صورت میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔
ایک اور ایم کیو ایم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ الطاف حسین کے لیے ون – ون صورتحال ہے ۔۔ انہوں نے (اسٹیبلشمنٹ) کو بتایا دیا کہ وہ اب بھی کنٹرول رکھتے ہیں‘۔
ادھر، الطاف حسین نے استعفے دینے پر پارلیمنٹیرینز کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ’آپ نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا‘۔