متحدہ قومی موومنٹ اسمبلیوں سے مستعفی
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے قومی اسمبلی، سینیٹ اور سندھ اسمبلی سے استعفی دے دیئے ہیں.
ایم کیو ایم نے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف جاری رینجرز آپریشن میں مبینہ طور پر متحدہ کو نشانہ بنائے جانے پر بطور احتجاج سندھ اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے 24 اراکین ہیں ان میں 19 اراکین براہ راست منتخب ، 4خواتین مخصوص نشستوں اور ایک اقلیتی نشست پر اراکین اسمبلی ہیں، سینیٹ میں ایم کیو ایم کے 8 اراکین ہیں جبکہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے 51 اراکین ہیں۔
واضح رہے کہ وفاق میں حکومت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہے جبکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق بھی مسلم لیگ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سینیٹ میں چیئرمین کی ذمہ داری پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما رضا ربانی ادا کر رہے ہیں اسی طرح سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے اور اسپیکر آغا سراج درانی کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے۔
قومی اسمبلی میں احتجاج
متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی میں نعرے لگاتے ہوئے آئے، ایم کیو ایم کے اراکین کراچی میں جاری رینجرز کی کارروائیوں اور الطاف حسین کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں اراکین سے خطاب میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، متحدہ نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ کوئی مانیٹرنگ کمیٹی بنائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ رینجرز کی کارروائیاں جانبدارانہ ہیں اور تحریک انصاف کے لیے راستہ ہموار کیا جا رہا ہے، کسی اور کے لیے بلدیاتی انتخابات کا راستہ کھولا جارہا ہے۔
فاروق ستار نے بتایا کہ کارکنوں کو غیر آئینی طریقے سے گرفتار کیا گیا، کسی کو گرفتار کیا ہے تو 90روز کا قانونی ریمانڈ لیں، گرفتار کارکنوں کا کوئی جوڈیشل ریمانڈ نہیں لیا گیا،
خیال رہے کہ فاروق ستار کو ایم کیو ایم نے 4روز قبل ہی پارلیمانی لیڈر بنایا ہے ان سے قبل رشید گوڈیل پارلیمانی لیڈر تھے۔
فاروق ستار نے مزید کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، ایم کیوایم قومی اسمبلی کی چوتھی اور سینیٹ کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔
انہوں نے خطاب کے دوران اعلان کیا ایم کیو ایم کے اراکین سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے آج ہی مستعفی ہوں گے۔
|
متحدہ کے پارلیمانی لیڈر نے مختلف سیاسی رہنماؤں کے وہ بیانات بھی 'انگریزی' میں پڑھے جو کہ مبینہ طور پر پاک فوج کے خلاف دیئے گئے تھے۔
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ بھتہ خوری کا پیسہ ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہوا، ایک نام نہاد فہرست فراہم کی گئی جس میں 90 کی دہائی کے معاملات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ الطاف حسین کو اظہار رائے کا قانونی حق حاصل ہے، ایم کیو ایم کے قائد اور کارکنوں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، کارکنوں کو غیر قانونی گرفتاریوں کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، متوسط طبقے کی جماعت کو کام سے روکا جا رہا ہے، ایم کیوایم کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں، سماجی فلاحی تمام سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔
متحدہ کے پارلیمانی لیڈر نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر 2 بار چھاپے مارے گئے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ نائن زیرو میں جرائم پیشہ افراد کو پناہ دی گئی ہے۔
خطاب کے اختتام پر انہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے جبکہ ایم کیو ایم کے اراکین 'ظلم کے ضابطے، ہم نہیں مانتے' کے نعرے لگا رہے تھے۔
قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو میں فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو مسترد کر چکی ہے۔
فاروق ستار نے کا کہا کہ کشمیر اسمبلی استعفی کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا، جبکہ استعفوں کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا آئندہ کا لائحہ عمل ابھی ایم کیو ایم نے طے نہیں کیا۔
اسپیکر کا استعفی قبول کرنے کا عندیہ
قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایازصادق نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اگر ایم کیو ایم اراکین نے رضاکارانہ طور پر استعفے دیئے تو وہ قبول کرلیں گے۔
ایاز صادق کا کہنا تھا کہ اگر انھوں نے اپنے استعفے میرے پاس جمع کرائے تو میں ان سے تصدیق کروں گا اور پھر قبول کروں گا۔
|
سینٹ میں استعفی جمع
متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین نے سینیٹ سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
ایم کیو ایم کے ایوان بالا میں 8 سینیٹرز ہیں جن میں کرنل ریٹائرڈ سید طاہر حسین مشہدی، خوش بخت شجاعت، مولانا تنویر الحق تھانوی، میاں محمد عتیق شیخ، ڈاکٹر محمد فروغ نسیم، محمد علی خان سیف، نسرین جلیل اور نگہت مرزا شامل ہیں۔
ایم کیو ایم کے اراکین کے استعفی سینیٹر طاہر مشہدی اور نسرین جلیل کی جانب سے سیکریٹری سینیٹ کو جمع کروائے گئے۔
ڈان نیوز کے مطابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی عدم موجودگی کے باعث استعفی سیکریٹری کے پاس جمع کروائے گئے۔
ایم کیو ایم کے 2 سینٹرز بابر غوری اور خوش بخت شجاعت بیرون ملک ہونے کے باعث پیش نہیں ہوئے۔
ڈان نیوز کے مطابق بابر غوری اور خوش بخت شجاعت کے استعفے فیکس پر منگوائے گئے البتہ متحدہ قومی موومنٹ کے 6 سینیٹرز کے استعفوں کی تصدیق کا عمل مکمل کر لیا گیا۔
سندھ اسمبلی سے استعفی
کراچی میں ایم کیو ایم کے اراکین سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے کے لیے ایک ساتھ آئے۔
سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے 51 اراکین ہیں جن میں سے 40 کے قریب اراکین استعفی جمع کروانے کے موقع پر موجود تھے۔
استعفی جمع کروانے سے قبل ایم کیو ایم کے اراکین کا اجلاس ہوا، جس میں اراکین نے اپنے استعفی پارلیمانی لیڈر کے پاس جمع کروائے۔
ارکان صوبائی اسمبلی استعفی دینے کے لیے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے سندھ اسمبلی پہنچے۔
ایوان میں اسپیکر آغا سراج درانی کی زیر صدارت اجلاس جاری تھا، جس میں ایم کیو ایم ارکان نے شرکت نہیں کی اور پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا لیا۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اسمبلی رکنیت سے استعفوں کا معاملہ زیر غور آیا۔
جس کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی سربراہی میں اسپیکر کے چیمبر پہنچے۔
پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے اسپیکر آغاز سراج درانی کے پاس استعفی جمع کروا دیئے۔
چیمبر سے نکل کر ایم کیو ایم کے اراکین نے گروپ کی شکل میں اسمبلی کی عمارت میں گشت کیا اور الطاف حسین کے حق میں نعرے بازی کی۔
ایم کیو ایم کے اراکین کا کہنا تھا کہ سندھ اسمبلی میں تمام 51 اراکین نے استعفی اسپیکر کے پاس جمع کروا دیئے ہیں۔
تمام اراکین کے استعفے ہاتھ سے لکھے گئے تھے۔
خیال رہے کہ سندھ اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا جاچکا ہے۔
بعد ازاں خواجہ اظہار الحسن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سندھ حکومت کے کالے کرتوت پوری طرح عیاں ہو چکے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ایم کیو ایم کو ایک ماہ قبل تک صوبائی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دیتی رہی، جب بھی پیپلز پارٹی کے گریبان پر ہاتھ پڑا اس نے ایم کیو ایم کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
رحمن ملک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کبھی کوئی بابا لندن کا دورہ کرتے تھے تو کبھی کوئی ملاقات کے لیے آتا تھا۔سابق صدر آصف علی زرداری پر تنقید کرتے ہوئے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ مفاہمت کے نام پر کی جانے والی منافقت کو پہچان چکی تھی۔
|
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم 5 سالہ تک احتجاج کرتی رہی مگر ان رینجرز کی کارروائیوں سے ثابت ہو گیا کہ بھتہ وصولی کون کر رہا تھا، مارکیٹوں سے مہینہ کس کو جا رہا تھا۔
لیاری کے گنگسٹر بابا لاڈلا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رینجرز کی کارروائیوں کے بعد اب واضح ہو گیا ہے کہ لاڈلے کس کے پالے ہوئے تھے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے 150 کرپٹ افراد کی فہرست بھی حکومت کو دی گئی تھی۔