نقطہ نظر

سرکپ: 'کئی دعاؤں سے آباد ہونے والا شہر'

اس شہر کی آنکھوں نے اس شہر کو خوشیوں کے پھولوں سے مہکتا ہوا بھی دیکھا ہے اور ویرانیوں کی ریت میں گم ہوتے ہوئے بھی۔

ایک نظر سے دیکھا جائے تو اجڑے ہوئے تاریخی مقامات فقط ٹوٹی ہوئی دیواروں، خاموش پتھروں، اور ویرانیوں کے نام ہیں۔ وہاں کی دیواریں، گلیاں، گھروں کے آنگن، آنگنوں میں اپنا وجود کھو دینے والے آنسو، خوشیوں کے قہقہے اور ان آنگنوں سے اٹھتے ہوئے اپنے پیاروں کے جنازوں کے دکھ نہ آپ سے کچھ مانگتے ہیں اور نہ ہی کوئی شکوہ و شکایت کرتے ہیں۔

ان خاموش ماضی کے مزاروں پر باد صبا کی شفتگی بھی آتی ہے اور شام کی گلابی لالی بھی پھیلتی ہے۔ یہاں جاڑے بھی آتے ہیں اور ساون بھادوں کی بدلیاں بھی برستی ہیں، جن کی وجہ سے ان خاموش آثاروں میں سے ہری گھاس اور جھاڑیاں اگ آتی ہیں، اور جیسے خزاں آتی ہے تو سوکھنا ان جھاڑیوں کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو سال در سال چلتا رہتا ہے۔

مگر آپ جب مشاہدے کی تیسری آنکھ لے کر ان آثاروں پر جاتے ہیں تو گلیاں ویران نہیں رہتیں، بلکہ لوگوں سے بھر جاتی ہیں، بازاروں میں سوکھی گھاس نہیں اگی ہوتی، بلکہ وہاں لوگ بیٹھے بیوپار کر رہے ہوتے ہیں، گلیوں کے آنگن میں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں، آسمان پر پرندے اڑتے ہیں، منڈیروں پر کوئل بیٹھی یا تو گا رہی ہوگی یا رو رہی ہوگی۔ یہ ساری وہ کیفیتیں ہیں جو ہمارے دل اور دماغ میں ایک تلاطم پیدا کرتی ہیں اور پھر ان چھینٹوں سے رنگ ابھرتے ہیں اور منظر بنتے جاتے ہیں۔

اشوک کی سانسوں نے 232 قبل مسیح میں اس سے بیوفائی کی۔ موریا سلطنت جس شان و شوکت سے اپنے کمال کی حد تک پہنچی، وہ واقعی کمال تھا۔ 'کلنگا' کی فتح کو موریا سلطنت کے کمال کی آخری سیڑھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس جنگ کے بعد اشوک کا جی خون بہانے سے جیسے ہٹ سا گیا تھا، اور یہی کیفیت تھی جس نے بغاوت اور زوال کا بیج بو دیا۔

اگر آپ تاریخ سے سوال کریں کہ اشوک کے بعد تخت پر کون بیٹھا، تو ایک جواب کے بجائے بہت سارے الجھے ہوئے جواب ہوں گے جس میں ہم الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اس کا بیٹا 'کنال' اس کا جانشین بنا، کوئی کہتا ہے 'سمپری' نے تخت سنبھالا۔ بہرحال جو بھی تخت پر بیٹھا ہو، ملک کے حالات جو بگڑنے پر آئے تو بگڑتے چلے گئے، اور برہمنوں نے اس جلتی ہوئی آگ کو اور ہوا دی، جس کے نتیجہ میں جو بھی تخت پر بیٹھتا، پہلے حاکم سے کمزور ثابت ہوتا۔ آخر موریاؤں کے کمال کے درخت کی آخری جڑ پر وقت کی کلہاڑی نے تب وار کیا جب فوج کے سالار 'پشی متر' نے راجہ 'برہدرتھ' کو قتل کیا اور اسی طرح اشوک کی موت کے 40 برس بعد موریا سلطنت ٹوٹ کر بکھر گئی۔

موریا سلطنت کے زوال کے بعد 'باختر' (باختر علاقہ افغانستان کے شمال میں کوہ ہندوکش اور دریائے جیحون کے درمیان واقع تھا، ایران کے بادشاہ 'گشتاسپ' نے پہلے پہل یہ مذہب قبول کیا اور اس کے پرانے بھجن 'اوستا' کی شکل میں مرتب ہوئے) کے یونانی نژاد بادشاہوں نے وادیء سندھ پر قبضہ کر لیا۔ ان کی 'راجدھانی' پہلے ٹیکسلا اور پھر سیالکوٹ (سکالا) تھی۔ یونانی بادشاہوں میں سب سے مشہور 'مناندر' (130-180 ق-م) ہے جس کی سلطنت جنوب میں دریائے نربدا اور مشرق میں متھرا تک پھیلی ہوئی تھی۔

مناندر بڑا روشن خیال اور وسیع مشرب فرمان روا تھا، اس کے دربار میں بدھ، جین، اور ہندو پنڈتوں کے درمیان بحث و مباحثے ہوتے رہتے تھے۔ بدھ مت کے سنتوں میں مناندر کا مرتبہ بہت اونچا ہے۔ اس کے گرو ناگاسین نے مناندر کے جو مکالمات اور اقوال 'ملندا پَنھا' کے نام سے مرتب کیے تھے، وہ آج بھی بدھ مت میں مقدس صحیفہ سمجھے جاتے ہیں۔

دوسری صدی قبل مسیح میں آباد ہونے والا 'سرکپ' کا یہ شہر باختری یونانیوں نے بسایا تھا۔ مالک اشتر لکھتے ہیں: "سرکپ کا نام بدھ روایت سے مستعار ہے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں پنجاب کی دو ہزار سال پرانی ایک لوک کہانی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ کہانی راجہ سرکپ سے متعلق ہے جو چالاک حکمران تھا اور 'چوپڑ' (چوسر) کا ماہر کھلاڑی تھا۔ اس کھیل میں جو ہارتا، اس کا سر کاٹ دیا جاتا۔ راجہ رسالو نے سرکپ کو کھیل میں ہرا دیا، مگر سرکپ کی جان بخشی کر دی گئی۔ اسی طرح اس شہر کا نام 'سرکپ' مشہور ہوگیا۔" سبط حسن نے بھی اس سے ملتی جلتی کہانی کا حوالہ دیا ہے۔

اپولونیئس آف تیانا (Apollonius of Tyana) پہلی صدی عیسوی میں یہاں آیا تھا، اس نے یونانی طرزِ تعمیر کے متعلق غالباً سرکپ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ: "ٹیکسلا کے متعلق ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ نینوا جتنا بڑا ہے اور اس کی شہر پناہ یونانی طرز کے مطابق تعمیر کی گئی ہے۔" اپولونیئس آگے لکھتا ہے: "میں نے پہلے بتایا ہے کہ شہر کی فصیل کس طرح تعمیر کی گئی ہے لیکن اس کو ایتھنز جیسی بے ترتیب اور تنگ گلیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

"میں جب وہاں پہنچا تو میرے سامنے کشادہ اور وسیع سڑک تھی جو بچھی ہوئی تھی اور اس کے دونوں کناروں پر ایک وسیع بازار کی دکانیں تھیں۔ پھر اس مرکزی شاہراہ کے دونوں اطراف میں گلیاں نکلتیں جو مشرق اور مغرب کی طرف چلی جاتیں۔ یہ یقیناً ایک بڑا شہر تھا۔ سونار، کمہار، کانسئے، بڑھئی، جولاہے، رنگریز، نگینہ ساز، بنئے، اور بقال تھے جن کی دکانیں تھیں اور خوب چلتی تھیں، ساتھ میں مقامی فروٹ اور پھولوں کی بھی خرید و فروخت ان ہی بازاروں میں ہوتی۔"

سبط حسن لکھتے ہیں: "سرکپ اور اس کے مضافات کی کھدائی میں سونے چاندی کے نہایت خوبصورت زیور اور سنگار کے سامان ملے ہیں۔ ان کے علاوہ بڑھئیوں، لوہاروں، سوناروں، اور جراحوں کے اوزار، پتھر کے اوزان، کھیتی باڑی، اور باغبانی کے آلات، بچوں کے کھلونے، مورتیاں اور ابھرواں چونہ کاری کی شبہیں، گنڈے تعویذ اور مالائیں، مہریں، سانچے اور دھات کے ٹھپے بڑی تعداد میں برآمد ہوئے ہیں۔

"ان چیزوں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ سونے چاندی کے زیور اور ظروف تو یونانی طرز کے ہیں البتہ لوہے، پتھر اور مٹی کے سامانوں کی طرز خالص مقامی ہے۔ اس تفریق سے پتہ چلتا ہے کہ یونانیوں اور ساکاؤں کے عہد میں ملک کے بالائی طبقے پر تو یونانی تہذیب کی چھاپ تھی لیکن عام ہنرمند بدستور پرانی ڈگر پر چلتے رہتے تھے۔"

اس شہر کی آنکھوں نے اس شہر کو خوشیوں کے پھولوں سے مہکتا ہوا بھی دیکھا ہے اور ویرانیوں کی ریت میں گم ہوتے ہوئے بھی۔ ان گلیوں میں سفید لباس میں 'موکش' کی تلاش میں، مہاویر کو آخری اوتار ماننے والے 'جین مت' کے پجاری تیز قدموں سے چلتے، جن کی جذبات اور جسمانی آسائشوں کے حصول کے درمیان ایک جنگ چل رہی ہوتی، اور جس نے اپنے جذبات اور نفس پر فتح حاصل کر لی وہ فاتح سمجھا جاتا تھا۔

ان گلیوں میں ان بھکشوؤں کے بھی قدموں کے نشانات ہیں جو نارنجی لباس پہنے دنیاوی دھوکوں سے دور رہنے کا ورد کرتے اور اسٹوپاؤں اور وہاروں کو آباد رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس شہر نے بہت سارے مذہبوں کو اپنی رواداری اور شفقت کی چھاؤں میں آباد رکھا تو شاید زیادہ غلط نہ ہوگا، اور یہ رواداری کسی شہر یا ملک کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہوتی۔

یہاں مندر بھی تھے اور 'دو منہ شاہین' کی عبادت گاہ بھی، جس کو پہلی صدی عیسوی کی ابتدا میں 'گونڈوفرنیز' (Gondopharnes) نے بنوایا تھا۔ اس ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے والے حاکم نے شہر کے بعض حصے بھی تعمیر کروائے تھے، جو زلزلے کی وجہ سے متاثر ہوگئے تھے۔

سرکپ تین صدیوں تک یونانیوں، ساکاؤں، پارتھیوں اور ابتدائی کشنوں کا دار الحکومت رہا، مگر سب سے زیادہ حکمرانی جن حکمرانوں نے کی وہ یونانی نژاد تھے، لہٰذا اس شہر کی بناوٹ پر بھی یونانی طرزِ تعمیر کا اثر ہے۔ تقریباً 30 قبلِ مسیح میں آنے والے ایک زلزلے کے بعد اس شہر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔

سبطِ حسن لکھتے ہیں: "عجیب بات یہ ہے کہ یونانیوں نے وادیء سندھ میں دو ڈھائی سو برس تک حکومت کی لیکن ان کے عہد کی ایک تحریر بھی ابھی تک دریافت نہیں ہوئی ہے۔ سرکپ کی کھدائی سے سینکڑوں یونانی سکے، زیورات، آلات و اوزار، عمارتوں کے کھنڈر، سب کچھ برآمد ہوا، لیکن کوئی نوشتہ آج تک نہیں ملا۔ ساکاؤں کے عہد کی عمارتوں میں ایک تو شاہی محل قابل ذکر ہے اور دوسرے دو منہ والے شاہین کی عبادت گاہ۔ برصغیر میں شاہی محل کے سب سے پرانے آثار سرکپ ہی کے ہیں، البتہ محل کی دیواریں بالکل سپاٹ ہیں، ان پر کوئی نقش و نگار نہیں ہے اور وہ ساخت میں عراق کے اشوری محلوں سے مشابہ ہیں۔"

گول اسٹوپا کے متعلق محققین کا یہ خیال ہے کہ یہ اسٹوپا ایک قدیم ترین اسٹوپا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اسٹوپا شدید زلزلے کے نتیجے میں موجودہ جگہ پر آن گرا تھا اور جب پہلی صدی میں شہر دوبارہ تعمیر کیا گیا تو اس کے گرد دیوار بنا کر اس کو محفوظ کردیا گیا۔ یہاں جتنے بھی مذاہب تھے ان میں بدھ مت کو آخر تک خاص اہمیت رہی۔ یہاں ایک وسیع ''گول مندر'' کی بہت بڑی عمارت کے آثار ہیں۔ اس مندر میں ایک مستطیل حصہ ہے جس میں کئی کمرے ہیں جو کہ بدھ راہبوں کے زیرِ استعمال تھے، اس کے علاوہ مندر کا ایک گول عبادتی کمرہ بھی ہے۔ 30 ق۔م میں آئے ہوئے زلزلے نے اس مندر کو بہت نقصان پہنچایا تھا جس کی بعد میں تعمیر کی گئی اور ساتھ میں اس مندر کی توسیع بھی کی گئی۔

اور پھر رومن تعمیر سے متاثر ہو کر تعمیر کیا گیا وہ اسٹوپا بھی ہے جس کے چاروں کونوں پر پتھر کے لٹھے تعمیر کیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے چاروں کونوں پر اس اسٹوپا کی حفاظت کے لیے چار محافظ کھڑے ہیں۔ اور 'سورج دیوتا' کا وہ مندر بھی ہے جو زمین پر جیسے اداس لیٹا ہے۔ اگر آپ مرکزی سڑک پر جنوب کی طرف سیدھے چلے جائیں، تو مشرق طرف کے اختتام پر 'شاہی محل' کے آثار ہیں، اور خاموش ہیں۔ دربان کا خستہ کمرہ ہے، کیونکہ اب دربان نہیں ہے تو سارے محل کے کمروں اور آفسوں کی طرح یہاں بھی خاموشی کی پیلی گھاس اگتی ہے۔

سرکپ ایک مضبوط فصیل کے اندر ایک محفوظ، خوشحال، خوبصورت، اور لاجواب شہر تھا، جو ویران ہوتا اور کسی دعا کے نتیجہ میں پھر آباد ہو جاتا۔ میں سورج اگنے سے پہلے یہاں آیا تھا۔ ناشتہ بھی میں نے یہاں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کیا تھا۔ وہاں آرکیالاجی ڈپارٹمنٹ کا محافظ جس کو سلمان رشید 'پوٹھوہاری' بلاتا ہے، اس نے مجھے کچھ ایسی نظروں سے دیکھا جس سے لگا کہ میں پاگل سا بندہ ہوں۔ لیکن پھر بھی وہ سارا دن ساتھ رہا اور آثاروں کے متعلق بتاتا رہا۔

اس خوبصورت شہر سے میں نے اگتے سورج کو دیکھا، تپتی دوپہر ان گلیوں میں گزاری اور اب سورج غروب ہونے لگا تھا۔ ہلکی گلابی لالی تھی جو اس شہر کے آسمان پر بکھر سی گئی۔ ہوا نہ ہونے کی وجہ سے ایک دھند تھی جو پھیلتی تھی۔ میں نے مرکزی داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر جنوب میں بادشاہ کے محل کو دیکھنے کی کوشش کی مگر دھند کی وجہ سے صاف نہ دیکھ سکا۔

میں نے سوچا، کتنی دعاؤں نے اس شہر کو کتنی بار آباد کیا ہوگا؟ مگر ایک وقت آتا ہے جب کمال کی کوکھ میں زوال کا بیج اگ ہی آتا ہے۔ سارے دن کا ساتھ تھا۔ میں 'پوٹھوہاری' سے گلے ملا۔ آخری نظر آثاروں کو دیکھا۔ ایک ہلکی نمکین پانی کہ تہہ تھی جو آنکھوں میں تیر سی گئی۔ میں نے سر جھکایا اور چل پڑا۔

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


حوالہ جات:

"پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء"۔۔۔سبط حسن (اُردو)

"تاریخ میں گم ہوتا شہر"، دستاویزی فلم از محمد عامر رانا تحقیق: انجنیئر مالک اشتر

Wikipedia.org

http://www.livius.org/pictures/pakistan/taxila/sirkap

Souvenir Taxila by M. Hanif Raza

بروشر ''آثار قدیمہ ٹیکسلا عالمی ثقافتی ورثہ" محکمہ آثارِ قدیمہ و عجائب گھر، حکومت پاکستان۔

"انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم'' جلد دوم۔ ولیم ایل لینگر۔ ترجمہ: مولانا غلام رسول مہر۔ الوقار پبلیکیشنز، لاہور۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔