کینسر کے مریضوں کے لیے بالوں کا عطیہ
گرمیوں کے موسم میں لوگ نت نئے بالوں کے سٹائلز اپناتے ہیں البتہ کتنے لوگ ہیں جو کسی خاص مقصد کے لیے اپنے بالوں کا عطیہ کرتے ہیں؟
کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس میں پاکستان یوتھ فورم کی جانب سے ’ہیئر ٹو ہیلپ‘ نامی ڈرائیو منعقد کی گئی جس میں 30 سے زائد لڑکیوں نے خوشی خوشی شرکت کی۔ اس تنظیم کا مقصد کینسر میں مبتلا مریضوں کے لیے قدرتی بالوں کی وگ بنانا تھا۔ اس موقع پر پینگ ہیئر اینڈ بیوٹی کلنک کی 2 اسٹائلسٹ موجود تھیں جس کے باعث رضا کار خواتین کو اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کے بال محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
اس ایونٹ کے حوالے سے فیس بک پر کچھ دن قبل اشتہار چلایا گیا تھا۔
ہیئر ٹو ہیلپ
پی وائے ایف کے سید فہد علی نے اس مہم کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس مہم کی سب سے بڑی وجہ شعور کی کمی کے مسئلے پر قابو پانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی وائے ایف نے اس مہم کا آغاز 2012 میں کیا تھا، دوسرے ممالک میں تو یہ عمل بہت عام ہے لیکن پاکستان میں اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ 2012 میں ایسی 2 اور مہمیں لاہور اور اسلام آباد میں کی گئیں۔
فہد نے اس مہم کی اہمیت اور ضرورت کے حوالے سے مزید بتایا کہ نقلی بالوں سے بنی ہوئی وگز دستیاب ہوتی ہیں جو کہ قیمت میں بھی کم ہیں البتہ وہ سر کی جلد پر نشانات چھوڑ دیتی ہیں اور الگ سے نمایاں ہوتی ہیں۔ قدرتی بالوں سے بنائی جانے والی وگز مہنگی ہوتی ہیں جن کی قیمت 15 ہزار سے 20 ہزار کے درمیان کی ہے۔
نیک مقصد کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران پی وائے ایف کو غلط تصورات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
فہد نے ڈان کو بتایا کہ جب ہم نے اس ڈرائیو کو شروع کیا تو لوگوں کا مثبت جواب نہیں ملا جبکہ لوگوں نے تنقید کی کہ یہ عمل اسلام میں قابل قبول نہیں ہے۔ بہر حال کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اس ڈرائیو کو کافی پسند کیا اور مجھے کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ ہم تقریباً 25 لوگوں کو یہ وگز دے چکے ہیں جن میں زیادہ تر 30 سال سے بڑی خواتین اور 12 سال سے چھوٹی لڑکیاں شامل ہیں۔
فہد کی اگلی بات نہایت حیرت انگیز تھی، ان کا کہنا تھا کہ متعدد میڈیکل کالجوں نے اس مہم کا ساتھ نہیں دیا اور اس کی کالج میں پروموشن کو منظور نہیں کیا۔
پی وائے ایف کی ٹیم علمائے دین سے اس مہم کے لیے فتویٰ لینے کی کوشش بھی کررہے ہے تاکہ مستقبل میں زیادہ سے زیادہ لوگ اس کا حصہ بن سکیں.
فہد نے مزید بتایا کہ ایک وگ کو بنانے کے لیے تقریباً 6 لوگوں کے بالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اس عمل کو مکمل ہونے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔
اس مہم میں زیادہ تر رضاکار لڑکیاں تھیں جو اپنے بالوں کا تقریباً 12 انچ حصہ دے کر نہایت خوشی محسوس کر رہی تھیں۔
فہد کا مزاحیہ انداز میں کہنا تھا کہ لڑکوں کے بال لمبے نہیں ہوتے تاہم کچھ لڑکوں نے اپنا پورا سر منڈوا دیا۔
رتابہ نامی ایک لڑکی جس نے اپنے بال اس مہم میں کٹوائے، کا کہنا تھا کہ جب کوئی مجھ سے چھوٹے بال کرانے کی وجہ پوچھتا ہے تو میں اسے اس مہم کے بارے میں بتاتی ہوں جس سے لوگوں میں اس عمل کے حوالے سے بیداری پیدا ہورہی ہے۔
ایک اور لڑکی ماریہ کا کہنا تھا کہ مجھے اس مہم کا فیس بک سے معلوم ہوا اور میں نے اس کے لیے فوری حامی بھرلی۔
بہت سے لوگوں کے لیے اس ایونٹ کا بہترین لمحہ اپنی تصاویریں بنوانا اور ان مریضوں کو بھیجنا تھا جن کی مدد انہوں نے کی ہے، البتہ فہد کا کہنا تھا کہ اس عمل کو نہایت پرائیویسی سے کیا گیا کیوں کہ یہ کوئی کاروبار نہیں بلکہ یہ لوگوں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے۔