کھیلوں کی دنیا میں متعدد کھلاڑی ایسے ہیں جنھوں نے بہت کم عمری میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔
کھیلوں کی دنیا میں متعدد کھلاڑی ایسے ہیں جنھوں نے بہت کم عمری میں ہی شہرت کی بلندیوں کو چھولیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ جتنے کم عمر ہو اتنے ہی زیادہ توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں اور کھیل جسمانی سرگرمیوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔
اسپورٹس اسٹار جو سخت محنت کے لیے جانے جاتے ہیں زیادہ طویل عرصے تک فٹ بھی رہتے ہیں مگر انہوں نے کامیابی اچانک حاصل نہیں جیسا نظر آتا ہے۔ انہوں نے تربیت حاصل کی، خود کو آگے بڑھایا اور ابتداءسے ہی بلندی کو پانا ان کا مقصد حیات تھا۔
ہر طرح کی رکاوٹیں عبور کرنا سترہ سالہ جہانگیر خان/ بورس بیکر اور اسٹیفی گراف کی 1985 کی تصویر پاکستان کے اسکواش لیجنڈ جہانگیر خان نے پہلی ورلڈ امیچور چیمپئن شپ پندرہ سال کی عمر میں جیتی، دو سال بعد 1981 میں انہوں نے اس وقت اسکواش کی دنیا پر راج کرنے والے آسٹریلیا کے جیف ہنٹ کو پچھاڑ کر ورلڈ اوپن اپنے نام کی۔
جہانگیر اگرچہ ابتداءمیں بہت کمزور سمجھے جاتے تھے مگر پہلے ان کے والد اور سابق برٹش اوپن چیمپئن روشن خان اور پھر ان کے مرحوم بڑے بھائی طورسم خان نے ان کی شخصیت کو پروان چڑھایا۔ طورسم خان 1979 میں ایک ٹورنامنٹ میچ کے دوران گر کر انتقال کرگئے تھے۔ اس سے قبل 27 سالہ طورسم نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک جانب لے جاکر بتایا تھا کہ ہمارے والد کی خواہش ہے کہ ان کا کوئی ایک بیٹا اسکواش کا عالمی چیمپئن بنے، " میں تو نہیں بن سکتا مگر تم ایسا کرسکتے ہو"۔
جہانگیر خان اپنے بھائی کی موت پر دلبرداشتہ ہوگئے تھے مگر انہوں نے بہت سخت محنت کی۔ اس بچے کا عزم دیکھ کر اس کے کزن رحمت خان نے اپنے کرئیر کی قربانی دے کر اس کی کوچنگ کا ذمہ سنبھالا۔
سترہ سالہ جہانگیر خان نے جب جیف ہنٹ کو شکست دی تو وہ اسکواش کورٹ میں سجدے میں گر گئے اور اپنے خواب کی تعبیر کے حصول پر پروردگار کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے بعد جہانگیر خان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور وہ پانچ سال آٹھ ماہ کے عرصے تک مسلسل 555 میچز میں ناقابل شکست رہے۔ انہوں نے لگاتار دس بار برٹش اوپن چیمپئن شپ اپنے نام کی جبکہ چھ بار ورلڈ اوپن چیمپئن بھی بنے۔
پھر جو کھلاڑی انہیں شکست دینے میں کامیاب ہوا وہ بھی پاکستان کا ایک اور نوجوان تھا جس کا نام جان شیر خان تھا۔
اب اسکواش سے نکل کر ٹینس کی بات کریں تو کس نے جون میک اینور، بورس بیکر، اسٹیفی گراف اور مائیکل چینگ کے بارے میں نہیں سنا ہوگا؟
میک اینور نے اٹھارہ سال کی عمر میں 1977 میں مکسڈ ڈبلز میں اپنی پارٹنر میری کاریلو کے ساتھ فرنچ اوپن جیتا۔ اسی سال وہ ومبلڈن کے سیمی فائنل تک پہنچے مگر وہاں جمی کونرز کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوا۔ دو سال بعد انہوں نے اپنا پہلا گرینڈ سلیم ٹائٹل یوایس اوپن کی شکل میں جیتا۔
میک اینور کو اس وقت کافی کم عمر سمجھا جاسکتا ہے تاہم دیگر نام اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے بورس بیکر اور اسٹیفی گراف اپنے کارناموں سے خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ 1967 میں پیدا ہونے والے بورس بیکر نے 1985 میں سترہ سال 227 دن کی عمر میں پہلے ان سیڈڈ اور پہلے جرمن کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کیا جس نے ومبلڈن کا سنگلز ٹائٹل اپنے نام کیا۔
اسی طرح 1969 میں پیدا ہونے والی اسٹیفی گراف نے تیرہ سال کی عمر سے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنا شروع کردیئے تاہم انہیں پہلا بڑا ٹائٹل 1987 میں جیتنے کا موقع ملا جب انہوں نے عالمی چیمپئن مارٹینا نیورتیلوا کو فرنچ اوپن کے سنگلز ٹائٹل میں شکست دی، اس کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ اسٹیفی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔
کرئیر کے ابتدا میں اسٹیفی کے والد پیٹر بیٹی کو اپنی نظروں میں رکھتے تھے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اسٹیفی کو بہت زیادہ ایونٹس میں حصہ نہ لے اور سماجی سرگرمیوں کی بجائے اپنے کھیل پر زیادہ توجہ مرکوز کرے۔ اپنے آغاز میں شرمیلی اسٹیفی نے کبھی اس کا برا نہیں منایا اور اپنا وقت کورٹ میں پریکٹس کرتے ہوئے گزارنے کو ترجیح دی۔
ایک اور نوجوان کھلاڑی جس نے ٹینس کی دنیا میں کچھ بڑا کیا وہ چینی نژاد امریکی مائیکل چینگ نے کم عمری کے متعدد ریکارڈز اپنے نام کیے۔یہاں تک کہ انہوں نے بورس بیکر کا سب سے کم عمری میں گرینڈ سلیم کا سنگلز ٹائٹل کا ریکارڈ کو بھی اپنے نام اس وقت کیا جب انہوں نے سترہ سال 110 دن کی عمر میں 1989 میں فرنچ اوپن کو جیت لیا۔
لٹل ماسٹرز