کاغان: برفانی تنہائی اور منجمد سیف الملوک
جس صبح میں جھیل سیف الملوک کو منجمد حالت میں دیکھنے اور برف میں آوارگی کی غرض سے نکلا، اس دن دور ہندوکش کے پہاڑوں پر جاتے جاتے پھر سے برف پڑ چکی تھی۔ میرے گھر کی چھت پر ہلکی دھوپ اتر چکی تھی، گملے میں سرخ گلاب تازه تازه کھِل چکا تھا۔ کلائی میں بندھی گھڑی 8 بجا رہی تھی۔ دور کہیں فضا میں نغمہ گونج رہا تھا "آوارہ ہوں، یا گردش میں ہوں آسمان کا تارہ ہوں۔" ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کی شعلہ بیانی رات بھر جاری رہی تھی۔ اس گھڑی آئی ایس پی آر کا بیان ٹی وی اسکرین پر چل رہا تھا جس میں سیاسی لیڈر کی شعلہ بیانی کو بیہودہ قرار دیا گیا تھا اور مجھے ہنس ہنس کر ہچکی کا دوره پڑ چکا تھا۔ جس صبح میں گھر سے نکلا یہ سب ہو چکا تھا۔ معاشرت، سیاست، اور منافقت پر دو حرف بھیج کر سامان لپیٹا اور گھر چھوڑ دیا۔
گاڑی نے شہر کو چھوڑا تو دھوپ کی تمازت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ گندم کے مڑیل کھیت سڑک کے دونوں اطراف پھیلے ہوئے تھے۔ خوشوں کا ذکر ہی کیا، یہ تو اپنے تنوں سے مڑ چکے تھے۔ ایسی کمزور، ناتواں، مڑیل گندم کی فصل دیکھ کر دل ڈوبنے لگا۔ پنجاب میں برستی مسلسل بارشوں نے دہقانوں کے صبر کا خوب امتحان لیا ہے۔ جب خدا بستی والوں کی محنت پر پانی پھیر دے تو بستی والوں کو توبہ کا دروازہ کھٹکھانے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ ایسی بے جان گندم کی فصل دیکھتے دیکھتے چناب کا پل آ گیا۔