کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
اس خطے کی تاریخ میں بیسویں صدی کا وسط بہت ہی اہم ہے، جس میں دنیا کے نقشے پر بہت اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب برطانوی سامراج کا سورج غروب ہو رہا تھا تو اُس نے جاتے جاتے بہت سے خطوں کی وحدتوں کو پارہ پارہ کیا۔ برطانوی سامراج کے زوال اور ہندوستان سے اُس کے اخراج میں عالمی حالات کے ساتھ ساتھ اس خطے کی تحاریکِ آزادی کا بنیادی کردار ہے۔
14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت پاکستان کے نام سے وجود پذیر ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے گیارہ ماہ بعد 9 جولائی 1948ء کو حکومتِ پاکستان نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا، جس پر پاکستان کا یومِ آزادی 15 اگست 1947ء کو قرار دیا گیا، لیکن بعد میں 14 اگست کو ہی یومِ آزادی ٹھہرا لیا گیا۔ قوم جشن آزادی 14 اگست کو منائے یا 15 اگست کو، یہ ضروری ہے کہ اس کے درمیانی وقفے میں کچھ گھنٹے لمحۂ فکریہ کے طور پر بھی گزارے جائیں کہ 68 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم آزادی کے ثمرات سے فیض یاب کیوں نہ ہو پائے۔
اب سب سے اہم سوال قوم کے سامنے یہ ہونا چاہیے کہ وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جو پاکستانی قوم کو آزادی کے اثرات و نتائج سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ بڑی سادہ سی بات ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک معاشرے کا ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے، جس میں دیکھا جائے کہ اس ملک کے وجود میں آنے کے بعد کن طبقوں نے حکومت و اقتدار سے مالی اور مادی فوائد حاصل کیے اور ان کی دولت و ثروت اور مال و جائیداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ اور وہ کون سے طبقے ہیں، جو ریاست و اقتدار کے مالک بااختیار طبقوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے غربت و افلاس، جہالت، تنگ دستی، اور خوف ناک امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں سیاست دانوں کے کاروبار ترقی کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اور سرمایہ دار دنیا میں اُن کے کاروبار کی تیز رفتار ترقی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے کاروبار نہ صرف پاکستان میں ہیں، بلکہ دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ غریب ملک کے حکمران اور سیاست دان اربوں روپے غیر ملکی بینکوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس ملک میں وہ حکمرانی، سیاست اور کاروبار کرتے ہیں، ورنہ اُن کی اولادوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے رہائشی منصوبوں کی پلاننگ بیرونِ ملک میں ہی کی جاتی ہے۔
یہاں آٹا، گھی، چینی، بجلی، گیس، پولٹری، ڈیری، سٹیل، پراپرٹی اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی ضروریات کے حامل شعبوں پر سیاست دان ہی قابض ہیں۔ اس ملک کی سیاسی قیادت اس حد تک اقتصادی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہے کہ وہ چند لاکھ کا فائدہ اٹھانے کے لیے کروڑوں روپے کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتی۔
اس ملک کے سیاست دان، مشیر، اور وزیر، سینیٹ اور اسمبلی کے اراکین، سول اور ملٹری بیوروکریسی، طاقتور صنعت کار اور اسٹاک ایکسچینج کے سٹے باز ایسے مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں کہ حکومت و اقتدار کی ہر سہولت ان کے خوانِ نعمت کا حصہ ہوتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً 80 شوگر ملیں ہیں اور ان میں سے 60 سے زیادہ سیاست دانوں، ان کے بھانجوں، بھتیجوں، دامادوں اور قریبی رشتے داروں کی ملکیت ہیں۔ اس ملک کے شریف حکمران، چوہدری سیاست دان، ایک سابق صدر اور ایک دینی جماعت کے سربراہ، یہ لوگ معمولی مالی حیثیت اور چھوٹے درجے کے کاروباروں کے مالک تھے، لیکن دورانِ اقتدار نہ صرف ان کے کاروبار بڑھے، بلکہ ان کے من پسند افراد اور خاندان بھی غیر معمولی مالی ترقی کر گئے۔
دو بڑی نام نہاد سیاسی پارٹیاں باری باری اقتدار کی مسند پر کئی بار قبضہ جما چکی ہیں۔ ان کے جمہوری ادوار میں کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے۔ ان میں موجود اشرافیہ مل بانٹ کر کھانے کے عمل کو مفاہمت کا نام دے کر کئی سال سے قوم کو دھوکا دے رہی ہے۔ اب یہی اشرافیہ ایک نئی ابھرتی سیاسی قوت کے ساتھ تال میل بڑھا کر ایک نئے راستے سے پھر اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں ہی اسلام آباد کے دھرنوں میں انہوں نے قوم کو بہت سے سبز باغ دکھائے تھے، جو محض احمقوں کی جنت اور دیوانوں کے خواب ثابت ہوئے۔
پاکستان میں پچھلی چار دہائیوں میں کمائی جانے والی دولت میں سے تقریباً 80 فیصد سیاسی اثر و رسوخ، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت ہے، جس کے 75 فیصد حصے کے مالک سیاست دان اور بیوروکریٹ ہیں۔ ہماری سڑکوں پر دوڑتی مہنگی گاڑیاں، دن بہ دن تعمیر ہوتے شاپنگ مال، نئی مہنگی رہائشی اسکیمیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے مالکان بھی یہی حکمران اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں، جبکہ اس ملک کا سفید پوش اور غریب طبقہ سیاسی، معاشی، سماجی، قانونی، اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ نظامِ میں اسمبلیوں میں موجود ہزار بارہ سو کے قریب سیاسی، مذہبی، علاقائی اور لسانی جماعتوں کے سربراہ اور اُن کے چیلے ہی چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر حکمرانی کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ الغرض پاکستان کی موجودہ سیاست اور حکمرانی کا ڈھانچہ بین الاقوامی استعمار کا قائم کردہ ایک ایسا بندوبست ہے، جس میں ان کی وفادار پارٹیاں اُن کے سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اس موقع پر اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ اس ملک کے استحصالی طبقے اس کی ترقی اور آزادی میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔ کیونکہ اس اقلیت کا مفاد اور عوام دو متضاد چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر اس ملک میں اجتماعیت پر مبنی اور استحصال سے پاک کسی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہے تو اس طبقے سے نجات ضروری ہے۔
محمد عباس شاد ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے ایڈیٹر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ قومی اور سماجی مسائل ان کی خصوصی دلچسپی کے امور ہیں جس پر ان کے تجزیے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔