پکوان کہانی: مٹن دم بریانی
جنوری کی سرد صبح میں مشی گن میں بیٹھی بریانی کو ترس رہی تھی، مجھے اس تکلیف دہ حقیقت کا احساس ہورہا تھا کہ پاکستان سے میری نقل مکانی مجھے دیسی کھانوں سے کتنا دور لے گئی ہے۔
ہڈیوں میں سرایت کرجانے والی ہوا اور برف سے مقابلہ کرتے ہوئے میں ڈاک بکس کی جانب بڑھی اور پھر مجھے دیسی مصالحوں کی مہک آئی۔
میں اس مہک کا تعاقب کرتے ہوئے ستر سالہ فخرالنساء آنٹی کے دوسری منزل پر واقع اپارٹمنٹ پہنچ گئی۔ میں نے ڈور بیل بجائی اور آنٹی نے گرمجوشی سے میرا استقبال کیا جہاں لذیذ مٹن بریانی دوپہر کے کھانے پر میرا انتظار کررہی تھی۔
بریانی کے سفر اور ارتقاء کی داستان لزی کولنگھم اپنی کتاب 'کری' میں بیان کرتی ہیں "لذیذ فارسی پلاﺅ کی ملاقات جب ہندوستان کے مصالحے دار اور چٹ پٹے چاول کے پکوانوں سے ہوئی تو کلاسیک مغلئی پکوان بریانی وجود میں آیا۔ فارسی کھانا پکانے کی ایک سب سے امتیازی تکنیک گوشت کو دہی میں بھگونا ہے۔ بریانی کے لیے پیاز، لہسن، بادام اور مصالحوں کو دہی میں شامل کرکے ایک گاڑھا پیسٹ تیار کیا جاتا ہے جس کی کوٹنگ گوشت پر کی جاتی ہے۔ ایک بار جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو گوشت کو پکانے کے برتن میں منتقل کرنے سے قبل کچھ دیر تل لیا جاتا ہے، اس کے بعد پلاﺅ کو پکانے کی تکنیک پر عمل کیا جاتا ہے، چاولوں کو پکا کر گوشت پر ڈال دیا جاتا ہے، زعفران ملے دودھ کو چاولوں پر انڈیلا جاتا ہے تاکہ اس پر رنگ چڑھ سکے اور خوشبو پیدا ہو اور پھر پورے پکوان کو ڈھکن سے ڈھک کر کم کوئلوں کی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بریانی درحقیقت فارسی پلاﺅ کا ہندوستانی مصالحہ دار روپ ہے، موجودہ عہد میں یہ برصغیر میں شادی کی تقاریب کا ایک پسندیدہ پکوان ہے۔"
مغل بادشاہ شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کو جدید بریانی تخلیق کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس مکمل پکوان کا خیال پیش کیا اور تجوزی دی کہ اسے جنگوں اور امن کے زمانوں میں فوجیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے۔
بریانی کا پلاﺅ سے ارتقاء کا سفر مسحور کردینے والا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ پکانے کے لیے دم کا طریقہ کار فارسی انداز کے کھانوں سے آیا اور یہ ممکنہ طور پر ایران سے افغانستان کے راستے برصغیر سفر کرکے پہنچا یا ماضی کے عرب سے بحیرہ عرب کے راستے تجارت کرنے والے تاجروں کے ساتھ کیرالہ پہنچا۔