نقطہ نظر

سنگنی قلعہ: سابق جیل، موجودہ مزار

مانا جاتا ہے کہ اسے مغلوں نے تعمیر کروایا تھا اور بعد میں اس پر کشمیر کے ڈوگروں اور سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

سنگنی قلعہ: سابق جیل، موجودہ مزار

ذوالفقار علی کلہوڑو

سنگنی کا قدیم قلعہ گجر خان سے 25 کلومیٹر مغرب میں سوئی چیمیاں کے دریا پر واقع ہے۔ یہ قلعہ جسے قیدیوں کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، اس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اسے مغلوں نے تعمیر کروایا تھا اور بعد میں اس پر کشمیر کے ڈوگروں اور سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

پوٹوہار کے خطے میں ایسے کئی قلعے ہیں جن میں روہتاس، اٹک، پھروالہ، روات، اور گری شامل ہیں۔ لیکن سنگنی کا قلعہ دو دریاؤں کے سنگم پر ایک بہت ہی خوبصورت جگہ پر قائم ہے۔

یہ ایک ایسی پہاڑی پر قائم ہے جہاں سے آپ کئی دیہاتوں کا طائرانہ نظارہ کر سکتے ہیں، جن میں سوئی چیمیاں اور ڈھوک لاس وغیرہ شامل ہیں۔ ڈھوک لاس کا گاؤں سترہویں صدی کے ایک قدیم قبرستان کے لیے مشہور ہے۔ یہ قبریں کنجور کے پتھر کی بنی ہیں، اور ممکنہ طور پر ان مغل سپاہیوں کی ہیں جو اس قلعے پر تعینات تھے۔ اسی طرح کی قبریں ٹکل گاؤں میں بھی ہیں۔ ایک مقبرہ، جو اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس مغل ناظم کا ہے جو سنگنی اور آس پاس کے دیہاتوں کا انتظام سنبھالتا تھا۔

قلعہ کا مرکزی دروازہ مشرقی جانب سے کھلتا ہے، جہاں سے آپ ٹکل گاؤں تک دیکھ سکتے ہیں، اور یہیں سے سیڑھیاں قلعے کے اندر جاتی ہیں۔

قلعے کے تقریباً ایک جتنے چار برج ہیں، جبکہ سیڑھیوں سے ان برجوں کے اوپر تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں سے قلعے اور آس پاس کے علاقوں کی حفاظت کی جاتی ہوگی۔

قلعے کے اندر عبدالحکیم کا مزار بھی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ وہ عرب سے براستہ ایران یہاں تبلیغ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ڈھوک لااس کے رشید کے مطابق عبدالحکیم ڈوگرا راج کے دوران سنگنی آئے تھے۔ اس وقت یہ علاقہ ریاست آزاد جموں و کشمیر کے زیرِ تسلط تھا۔ جب عبدالحکیم تبلیغ کے لیے سنگنی آئے، تو ڈوگرا سپاہیوں نے انہیں یہاں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ انہیں علاقہ بدر کر کے چکڑالی میں رہنے پ مجبور کیا گیا جہاں کئی لوگ ان کے مرید بن گئے۔ انہوں نے چکڑالی کو تبلیغ کا مستقل مرکز بنا لیا، جہاں سے ان کا نام دیگر علاقوں میں پھیلتا گیا اور وہ پوٹوہار ریجن کے تمام علاقوں میں مشہور ہوگئے۔ انہوں نے چکڑالی میں ہی وفات پائی اور وہیں ان کی تدفین ہوئی۔

سوئی چیمیاں کے راجہ اسلم کے مطابق عبدالحکیم کی وفات کے 50 سال بعد چند لوگوں نے انہیں خواب میں دیکھا، کہ وہ اپنی باقیات سنگنی منتقل کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کی باقیات کو سنگنی لے جایا گیا جہاں آج ان کا مزار قلعے کے بیچوں بیچ کھڑا ہے۔ بہت جلد سنگنی کا نام سنگنی شریف پڑ گیا۔

پوٹوہاری طرزِ تعمیر کی ایک زبردست مثال یہ مزار ان کے مریدوں نے تعمیر کیا تھا۔

اس میں داخل ہونے کے لیے تمام سمتوں سے سہ محرابی دروازے تعمیر کیے گئے ہیں۔ مزار ماربل سے تعمیر کردہ ہے۔ گنبد ایک چوکور عمارت کے اوپر ہے، جبکہ عمارت کے کوںوں پر چار مینار ہیں۔ گنبد کی بنیاد کو کاشی کی ٹائلز سے سجایا گیا ہے۔ مزار کے قریب ہی ایک مسجد ہے، جو عبدالحکیم کے مریدوں نے بنوائی تھی۔

راہداری کی دیواریں جدید سیرامکس سے سجائی گئی ہیں، جبکہ مزار کے اندر شیشے کا کام کیا گیا ہے۔ ٹائلیں اور شیشے کا کام مزاروں کے جدید پوٹوہاری طرزِ تعمیر کا بنیادی جزو ہے۔ تمام دیہاتوں اور قصبوں میں جہاں کہیں بھی مزار ہیں، وہاں یہ دو طرح کی سجاوٹیں ضرور ملیں گی۔

مزار پر ہر جمعرات اور جمعے کو بڑی تعداد میں مرید آتے ہیں۔ نوبیاہتا جوڑے بھی یہاں ان بزرگ کی دعائیں لینے کے لیے آتے ہیں۔ لوگ اپنی مرادوں کی تکمیل اور بزرگ کے تشکر کے لیے مزار پر جانوروں کی قربانی بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عقیدتمند قلعے کے مغربی جانب واقع چشمے میں بھی غسل کرتے ہیں جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ ان بزرگ کا معجزہ ہے۔

مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ سنگنی میں کوئی چشمہ موجود نہیں تھا، یہاں تک کہ عبدالحکیم کو سنگنی قلعے میں دفن کیا گیا۔ چشمہ کبھی بھی خشک نہیں ہوتا ہے۔ اس میں نہانے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ اس سے ان کی بیماریاں دور ہوجائیں گی۔ پوٹوہار کے کئی مزارات میں پانی سے علاج اب بھی عام بات ہے۔

مزار کی طرح قلعے کا خیال بھی عبدالحکیم کے عقیدتمند رکھتے ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں.


ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kalhorozulfiqar@

ذوالفقار علی کلہوڑو

ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کریں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔