کراچی کی دگرگوں حالت کا ذمہ دار کون؟
ہرا بھرا، سر سبز لہلہاتا شہر، یہ ہے اسلام آباد!
کیا میں پاکستان میں ہی ہوں؟ یہ تھی میری وہ پہلی سوچ جو اسلام آباد پہنچنے پر میرے ذہن میں آئی تھی۔ یہ اسلام آباد کا میرا پہلا سفر نہیں تھا بلکہ اپنی نوکری اور سیر و تفریح کی غرض سے میرا اس شہر میں آنا جانا ہوتا رہا ہے۔ لیکن اب کی بار اس شہر کو مزید قریب سے دیکھنے کا اتفاق نوکری کی غرض سے اس شہر میں رہائش اختیار کرنے کے باعث ہوا۔
دوستوں اور رشتہ داروں کو جب اس بابت علم ہوا تو اکثریت کا خیال یہ تھا کہ کراچی کی مصروف زندگی اور چہل پہل کے مقابلے میں اسلام آباد ایک زندگی سے عاری اور سرد مہر شہر ہے۔ احباب نے اس شہر میں رہائش کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ گنوائے۔ لیکن ایک بات جو میں نے یہاں آ کر گذشتہ تین ماہ میں کئی بار بڑی شدّت سے محسوس کی، وہ ہے مجھ میں روز بروز بڑھتا ہوا احساسِ محرومی۔ اپنے لیے نہیں، بلکہ اپنے آبائی شہر کراچی کے لیے!
کسی ایک شخص نے بھی مجھے یہ نہیں بتایا تھا کہ کراچی کو اپنا دل کہنے والی مملکتِ پاکستان کے دارالحکومت میں رہائش اختیار کرنے کے بعد مجھے اپنے شہر کراچی کی بدترین اور دن بدن ابتر ہوتی حالتِ زار کا اس شدّت سے احساس ہوگا۔ اور اس احساسِ محرومی کی وجہ صرف یہاں کا لہلہاتا سبزہ اور خوبصورت موسم نہیں بلکہ وہ تمام شہری خصوصیات اور سہولیات ہیں جو بلاشبہ کراچی کا بھی حق ہیں۔
پڑھیے: 'خوبصورت اسلام آباد'... نہیں 'بدصورت اسلام آباد'
کراچی کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے اس شہر کا امن و امان۔ اس صورتحال کا اندازہ مجھے کراچی میں رہ کر تو جو تھا سو تھا، یہاں آ کر انتہائی گہری تشویش میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہاں اکثریت یہ سمجھتی اور مانتی ہے کہ کراچی بیروت کا منظر پیش کرتا ہے اور ہر سڑک اور چوک پر گولیاں چلتی ہیں۔ اگر اپنے ملک کے دوسرے شہروں میں رہنے والے لوگوں کا کراچی کے بارے میں یہ تصور ہے، تو دوسرے ممالک کے لوگ کیا سوچتے ہوں گے؟
حقیقی صورتحال اتنی بھیانک نہ سہی مگر اس کے کلّی برعکس بھی نہیں، اور یہی حقیقت دلِ چیر دینے کے لیے کافی ہے کہ امن و امان اور تحفّظ کی جس پُر اطمینان کیفیت کو محسوس کرنا کراچی کے ہر شہری کا حق ہے، وہ اس کو میسر نہیں۔ اپنی گلی، محّلے اور سڑکوں و بازاروں میں چلتے پھرتے تحفّظ کی جس کیفیت کا میں نے اسِ شہر میں آ کر تجربہ کیا ہے، میری خواہش ہے کہ وہ کراچی کے ہر شہری کے حصّے میں آئے۔
رات بارہ بجے اکیلے سفر کرتے یا راستے میں گاڑی روکتے، سڑک کے کنارے کھڑے بے خوف و خطر موبائل فون استعمال کرتے، گھر کے گیٹ کا تالا صبح سے شام تک کھلا رکھتے، کسی موٹر سائیکل سوار کے قریب سے گزرنے پر خوفزدہ نہ ہوتے، میں اطمینان اور سکون کے جس احساس کو محسوس کرتی ہوں، کاش کراچی کا ہر شہری کر سکے۔
اس شہر کا ایک اور مثبت پہلو ٹریفک قوانین کی عملداری، اصولوں کی پاسداری، اور ٹریفک پولیس و عملے کی فرض شناسی ہے۔ کراچی میں جہاں ہر سڑک اور چوراہے پر موٹر سائیکل سوار کھلے عام ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی کرتے، ٹریفک پولیس سے بحث مباحثہ کرتے، اور ون وے سڑکوں پر گاڑیاں غلط سمت میں انتہائی دھڑّلے سے دوڑاتے نظر آتے ہیں، وہیں اسلام آباد میں صورتحال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے جہاں اپنی آمد کے اگلے ہی دن ایک چوکی پر ایک ٹریفک کانسٹیبل نے مجھے باوجود ایک خاتون ہونے کے (جس مراعت کی ہمیں کراچی کا شہری ہونے کی حیثیت سے عادت ہے) چوکی پر اس لیے روک لیا کہ میں نے ڈرائیونگ سیٹ پر ہونے کے باوجود سیٹ بیلٹ نہیں لگایا ہوا تھا۔
پڑھیے: کراچی میں فرقہ ورانہ دہشتگردی
یہاں کراچی کی ٹریفک پولیس سے ان کی بد انتظامیوں کی شکایت اپنی جگہ، لیکن اس ساری صورتحال میں کراچی کے شہری بھی برابر کے شریک ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک، گاڑیوں اور موٹر سائیکل سواروں کی عدم برداشت اور ٹریفک اشاروں کی خلاف ورزی، چند ایسی باتیں ہیں جو دن بہ دن تیزی سے مزید تنزّلی کی جانب بڑھ رہی ہیں اور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہری بھی اس میں اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کر رہے ہیں۔
میونسپل اداروں کی جانب دیکھیے، وہاں کے حالات بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ کراچی شہر کے میونسپل اداروں کی کوتاہیاں اور بے ایمانیاں ہر سڑک، چوک اور شاہراہ پر جا بجا پڑے بڑے بڑے کچرے کے ڈھیروں، گلی محلے میں ابلتے گٹروں اور صفائی کے ناپید انتظامات کی صورت میں واضح نظر آتی ہیں۔
انہیں کیا الزام دیں کہ جب خود کراچی کے شہریوں کو اپنی بقا عزیز نہیں؟ اپنے گھر سے کچرا نکال کر گلی میں ڈال دیا، باقی گلی والے جانیں۔ گھر سے پانی باہر گلی میں بہہ رہا ہے تو کیا فکر! لیکن شہرِ اسلام آباد میں مجھے بہت کچھ مختلف نظر آیا۔ ہر گلی محلّے میں رکھے بڑے بڑے کچرا دان اور ان سے باقاعدگی سے کچرا اٹھاتی میونسپل گاڑیاں، اور جا بجا صفائیاں کرتے اور گھروں میں باقاعدگی سے کچرا اٹھانے آتے خاکروب۔
یہاں معاملہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کا نہیں البتہ اس موقع پر مجھے اپنے استادِ محترم کا ایک شعر یاد آیا جو کراچی کے شہریوں کا حسبِ حال ہے:
گھر پھونکنے میں صرف ہوا ہی نہیں شریک
شامل کچھ اس میں گھر کے دیے کا ہنر بھی ہے
یعنی اس شہر کی بربادی میں یہاں کے حکومتی اداروں، سیاسی تنظیموں اور جماعتوں کا کردار اپنی جگہ، شہرِ کراچی کے اپنے شہری بھی اس تنزّل کے لیے کچھ کم ذمہ دار نہیں۔ اسلام آباد کے شہری اپنے شہر کی خوبصورتی اور سبزے کی پائیداری کے لیے کتنے حسّاس ہیں، اس بابت بھی سن لیجیے۔ گھر کے پاس بنے ایک چھوٹے سے پارک میں جہاں میرے بچّے فٹ بال کھیلنے جاتے ہیں، پارک میں موجود ہریالی کو برقرار رکھنے کے لیے وہاں کھیلنے والے بچّے خود رقم ملا کر نئی گھاس لگواتے ہیں تاکہ ان کے فٹ بال کھیلنے کے باعث جو گھاس خراب ہوئی ہے، اسے ٹھیک کیا جا سکے۔
پڑھیے: زندہ لاشوں کا شہر
کراچی کے شہری اپنے شہر کو اجڑتا اور اسے سیمنٹ اور آلودگی کے جنگل میں تبدیل ہوتا دیکھتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔ بارش کی کمیابی کا گلہ کرتے ہیں مگر اپنی آنے والی نسل کو مزید درخت اگا کر اس کمی کو دور کرنے کا تحفہ دینے کی نہیں سوچتے۔
میری یہ شکایت سندھ حکومت اور اس سے وابستہ اداروں سے ہے، ان تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں سے ہے جو کراچی پر ووٹ بینک مضبوط ہونے کا اختیار دکھا کر حق تو جماتے ہیں مگر اس شہر کی زبوں حالی پر الزامات کا ملبہ محض بلدیاتی اداروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ حکومت کا حصہ نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اپنے شہری فرائض سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔
مجھے کراچی کے ان تمام شہریوں سے شکایت ہے جو اپنی گلی، محلّوں کو اپنے گھروں کا حصّہ نہیں سمجھتے۔ جو شہر کی ابتری کا، اس کے اجاڑ بیابان ہونے کا رونا روتے ہیں، مگر اسے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں۔ ٹریفک کی صورتحال پر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر وقت پڑنے پر خود بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اگر آج کراچی کا ہر شہری اپنی سطح پر یہ طے کر لے کہ وہ اپنے شہری فرائض کو پورا کرے گا تو اس شہر میں مثبت تبدیلیاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انفرادی طور پر قدم بڑھائیے، اجتماعی سطح پر بڑی تبدیلیاں خود بخود رونما ہوں گی۔
شاذیہ کاظمی ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ٹی وی ڈرامے اور ریڈیو پروگرامز بھی تحریر کیے ہیں۔ انِہیں دو PAS ایوارڈز بھی ملِ چکے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: shaziya@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔