"خوبصورت اسلام آباد" کے لیے گھروں سے بے دخلی؟
خوبصورت اسلام آباد شاید پاکستان کا ستھرا ترین شہر ہے، جس میں مرگلہ کی پہاڑیاں اور قدرت شہر کے ہر مقام سے ہی نظر آتی ہیں۔ انڈرپاس اور فلائی اوور برج دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ملک میں کچھ تو درست ہو رہا ہے۔ لیکن چند باتیں اور بھی ہیں۔
پلان شدہ سیکٹروں ای اور آئی کے درمیان ایک آبادی ایسی ہے جس کے کندھوں پر ڈپلومیٹس کے اس شہر کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری ہے۔
ایوانِ اقتدار تب چمکتے ہیں، جب یہ کلینر سارا دن اپنا پسینہ بہاتے ہیں، اور دن کے اختتام پر صفائی سے ناآشنا جھونپڑیوں میں لوٹ جاتے ہیں جہاں کم سے کم بجلی، پانی، اور سیوریج کی سہولیات موجود ہیں۔
اسلام آباد میں مختلف برادریوں کی اپنی اپنی مخصوص کچی و غیر قانونی آبادیاں موجود ہیں۔ سیکٹر I-11 کی آبادی افغان مہاجرین کی ہے، جبکہ سیکٹر F-6، F-7، G-7، G-8، اور G-12 کی آبادیاں پاکستانی مسیحیوں اور مسلمانوں کی ہیں۔ جو لوگ ان جھونپڑیوں میں رہتے ہیں وہ غریب اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
لیکن یہ اسلام آباد کے مستقل رہائشیوں کو بنیادی اور نہایت ضروری خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ان آبادیوں کے زیادہ تر مرد و خواتین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور قریب کے گھروں میں خاکروب اور سکیورٹی گارڈز کے طور پر کام کرتے ہیں۔
اس طرح دیوار سے لگی ہوئی اس آبادی کو نہ صرف روزگار مہیا ہوتا ہے، بلکہ امیر گھرانوں کو سستے داموں ملازمین بھی دستیاب ہوجاتے ہیں۔
اب سی ڈی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے ایک بے دخلی مہم شروع کی ہے، جسے شہر کی سول سوسائٹی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
اسلام آباد کے ایک سرگرم سماجی کارکن اسامہ خلجی کا کہنا ہے:
"اسلام آباد کے درمیانے اور اونچے طبقے کے لوگ جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو امتیاز کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور نہیں سمجھتے کہ کم سے کم سہولیات والی کم قیمت رہائش کے علاوہ ان لوگوں کے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں۔"
یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو حکومت سے اس طرح کی آبادیاں راتوں رات اکھاڑ دینے کی خواہش کرتے تھے، سمجھتے ہیں کہ ایسا تب تک نہیں ہونا چاہیے جب تک متبادل رہائش کا انتظام نہ ہو۔
سی ڈی اے کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "سی ڈی اے کو سی ڈی اے آرڈینینس 1960 کے تحت جو اختیارات دیے گئے ہیں، وہ ان پر مکمل عملدرآمد، اور ہر حال میں ماسٹر پلان کی پابندی کے لیے پر عزم ہے۔ گذشتہ سالوں میں سی ڈی اے کافی وسیع ہو چکا ہے، اور اینٹی انکروچمنٹ ونگ 2006 میں ہی شامل کیا گیا ہے، تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم کتنے فعال ہیں۔"
تو جب سی ڈی اے کو کورٹ احکامات کی صورت میں ایک نیا عزم مل گیا ہے، تو سول سوسائٹی اسے ریاستی سرپرستی میں جاری غریبوں کی زبردستی بے دخلی قرار دے رہی ہے، جن کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ سول سوسائٹی صرف اس لیے کچی آبادی کے مکینوں کی حمایت میں کھڑی ہے، کیونکہ وہ سستے ملازم ہیں، لہٰذا وہ غریبوں کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ اپنے معیارِ زندگی کو لاحق خطرات سے بچنے کے لیے ان کی حمایت کر رہے ہیں۔
میں نے I-11 کی کچی آبادی میں ایک دکاندار مرتضیٰ سے بات کی، جو مہمند ایجنسی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے مطابق تین ماہ پہلے حکومتی اہلکار آئے تھے اور انہیں کچی آبادی خالی کرنے کا کہہ کر گئے تھے۔ پھر یہ تین دن کے نوٹس آتے رہے، لیکن لوگوں نے جگہ خالی نہیں کی۔
اس کا کہنا تھا کہ اگر انہیں زبردستی نکالا گیا، تو وہ مہمند ایجنسی واپس چلے جائیں گے۔
کچھ لوگوں نے عدم اتفاق کیا۔ مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے پھل فروش گلالئی خان کا کہنا تھا کہ وہ واپس نہیں جائے گا کیونکہ وہ اس کے بچوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں ہے۔
"ہم یہاں ایک چھوٹی جھونپڑی میں 10 لوگ رہتے ہیں، لیکن اگر انہوں نے زبردستی نکالا، تو ہم سڑک پر آجائیں گے۔"
اس نے امید ظاہر کی کہ حکومت کے ساتھ جرگہ مذاکرات کے ذریعے کچھ حل نکل آئے گا۔
|
اسلام آباد کی ایک کاروباری شخصیت فریاب گل کا ماننا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ پاکستانیوں کو متبادل رہائش فراہم کرے اور افغانوں کو بے دخل کردے، کیونکہ یہ آبادیاں منشیات اور جرائم کے اڈے سے زیادہ کچھ نہیں، جس سے ہمارے بچوں اور ہمارے شہر کو خطرہ ہے۔
یہ عام طور پر معلوم حقیقت ہے کہ اگر تمام نہیں تو اس طرح کی زیادہ تر آبادیوں میں ہر طرح کی منشیات اور غیر قانونی الکوحل وغیرہ مل جاتا ہے، لیکن جوابی دلیل یہ ہے کہ جرم تو ہر جگہ ہے، اعلیٰ طبقے کے ان مجرمان کے بارے میں کیا کہیں جو اسلام آباد کی عالیشان کوٹھیوں میں رہتے ہیں؟
سی ڈی اے نے بار بار اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی ہے لیکن کبھی کسی تو کبھی کسی وجہ کی بناء پر ترقی رکتی رہی، جیسا کہ ہر سرکاری ادارے کے ساتھ ہوتا ہی ہے۔ چند سالوں پہلے حکام نے فیصلہ کیا تھا کہ 11 تسلیم شدہ کچی آبادیوں میں سے 5 کو مسمار کر دیا جائے گا کیونکہ وہ دیگر مقاصد کے لیے مختص پلاٹس پر قائم ہیں۔ ان میں ڈھوک نجو، مسکین آباد، بینظیر کالونی، مسلم کالونی، اور افغان بستی شامل ہیں۔ باقی F-6/2, F-7/4, G-7/1, G-7/2, G-7/3 اور G-8/1 کی آبادیوں کو مرحلہ وار اپ گریڈ کیا جانا تھا۔
اب سال 2015 آ چاکا ہے، اور افغان بستی اور ہر دوسری بستی وہیں پر ہے جہاں وہ پہلے تھی۔ یہ آبادیاں اب شہر کے اندر قصبوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ سیکٹر G-12 کی آبادی تو اتنی بڑی ہے کہ رہائشیوں نے کشمیر ہائی وے کے ساتھ لگژری کار شورومز، کوٹھیاں، اور یہاں تک کہ ہوٹل بھی تعمیر کر لیے ہیں۔
شہر کی تمام اندرونی سڑکیں جو اسلام آباد کو چوکور حصوں میں تقسیم کرتی ہیں، سیکٹر G-11 کے اختتام پر ختم ہوجاتی ہیں، اور اس کے بعد میرا آبادی کی بستی ہے، جو ایک نو گو ایریا کی طرح ہے، اور اس کے بعد یتیم و لاوارث سیکٹر G-13 ہے جو کہ باقی شہر سے کٹا ہوا اور بھلا دیا گیا لگتا ہے۔
|
افغان بستی کے چند رہائشیوں کے مطابق یہاں 5000 سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی لوگ اس جگہ پر رہتے ہیں جو سیکٹر G-12 ہو سکتا تھا۔ یہ ہزاروں لوگ اگر کسی دوسری جگہ منتقلی کے منصوبے کے بغیر زبردستی بے دخل کر دیے گئے، تو یہ سب کہاں جائیں گے؟
حکومت کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے۔ اسے صرف زمین واپس چاہیے۔
رہنے والوں کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہے، وہ صرف وہیں رہنا چاہتے ہیں۔ شاید حکومت کو ایک جامع ترقیاتی منصوبہ بنا کر کم قیمت رہائش مہیا کرنی چاہیے۔
صدیق ہمایوں پالیسی تجزیہ کار ہیں، اور کولمبیا جرنلزم اسکول سے فارغ التحصیل ہیں۔
ان سے siddique.humayun@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: siddiquehumayun@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔