دنیا

افغان حکومت کی ملا عمر کے انتقال کی تصدیق

افغان حکومت کے مطابق ملا عمر کا انتقال اپریل، 2013 کراچی میں ہوا، وائٹ ہاؤس نے اطلاعات کو قابل اعتبار قرار دے دیا۔
|

کابل: افغانستان نے کہا ہے کہ طالبان سربراہ ملا محمد عمر دو سال پہلے پاکستان میں انتقال کر چکے۔

ماضی میں ملا عمر کی خرابیِ صحت اور موت کی افواہیں سامنے آتی رہی ہیں لیکن کابل اور طالبان کے درمیان امن بات چیت سے دو دن پہلے بدھ کو سامنے آنے والے ان دعوؤں کی خود افغان حکومت نے تصدیق کی ہے۔

افغان صدارتی محل سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ ’اسلامی ریپبلک افغانستان کی حکومت مستنداطلاعات کی بنیاد پر تصدیق کرتی ہے کہ طالبان رہنما ملا محمد عمر اپریل، 2013 پاکستان میں انتقال کر گئے‘۔

افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملا عمرکا انتقال ’پراسرار حالات میں‘کراچی کے ایک ہسپتال میں ہوا۔

امریکا نے بدھ کو کہا کہ وہ ملا عمر کی موت کی خبروں سے آگاہ ہے اور اس کے خیال میں یہ خبریں قابل اعتبار ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایرک شلٹز نے کہا کہ امریکا کے خفیہ ادارے ان اطلاعات کی چھان بین کر رہی ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ موت سے متعلق خبروں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

ابھی تک افغان طالبان نے باضابطہ طور پر اپنے قائد کی موت کی تصدیق نہیں کی۔

ملا عمر کے انتقال کی خبروں نےطالبان اور کابل میں جمعہ کو پاکستان میں ہونے والے امن مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ پر شبہات ڈال دیے ہیں۔

پاکستان میں افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یقیناً اس خبر سے بات چیت کا عمل متاثرہو گا‘۔

یاد رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے آج سب سے پہلے اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا کہ ملا عمر تین سال قبل ہلاک ہو چکے۔

حالیہ دنوں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی حمایت میں ملا عمر کے نام سے منسوب ایک بیان میں ملک کی 13 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے کر مذاکرات کی حمایت کی گئی تھی۔

عید کے حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں ملا عمر نے کہا تھا کہ ’اسلام میں مذاکرات، اور پُر امن بات چیت کی ممانعت نہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلح جہاد کے ساتھ ساتھ سیاسی کوششوں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پُرامن مذاکرات اسلامی اصولوں کا حصہ ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق، طالبان گورننگ کونسل کے ایک رکن نےعید کے موقع پر ملا عمر کے سامنے آنے والے پیغام پر شبہ ظاہر کیا تھا۔

رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بدھ کے روز بتایا کہ ’گزشتہ کئی سالوں سے ملا عمر نے کسی بڑے اجتماع میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی اپنے حامیوں کیلئے کوئی آڈیو پیغام دیا اور اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں نہیں رہے‘۔

2001-1996 میں طالبان دور حکومت میں وزارت خارجہ سے وابستہ رہنے والے ایک مبصر وحید مزداح نے کہا عسکریت پسندوں کی جانب سے موت کی تصدیق کی صورت میں ان کی تحریک میں اتحاد برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔