دنیا

انڈین پنجاب میں حملہ کرنے والے مسلمان تھے، پولیس

انڈین پولیس کا یہ بیان ان قیاس آرئیوں سے مختلف ہے جن میں کہا گیا تھا کہ حملہ آور سکھ علیحدگی پسند ہو سکتے ہیں۔

دینا نگر: ہندوستانی پنجاب کے پولیس سربراہ نے دعوی کیا ہے کہ پاکستانی سرحد کے قریب ایک علاقے میں 12 گھنٹے تک سیکیورٹی فورسز سے لڑنے والے تینوں حملہ آور مسلمان تھے۔

ڈائریکٹر جنرل پولیس سومیدھ سنگھ سینی نے حملے کا نشانہ بننےوالے پولیس سٹیشن کا دورہ کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ لاشوں کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے۔

سینی کا بیان ان قیاس آرئیوں سے مختلف ہے جن میں کہا گیا تھا کہ حملہ آور سکھ علیحدگی پسند ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ پیر کی صبح ہونے والے حملے میں چار پولیس اہلکاروں، تین شہریوں اور تین عسکریت پسند مارے گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں انڈین پنجاب میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔

سینی نے یہ نہیں بتایا کہ پولیس نے کیسے نتیجہ اخذ کیا کہ حملہ آور مسلمان تھے۔ انہوں نے حملہ آوروں کے پاکستانی ہونے کی تصدیق کرنے سے بھی انکار کیا۔

سینی کے مطابق، پولیس ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت نہیں کر سکی کیونکہ ان کے پاس شناختی کاغذات یا دوسری دستاویزات نہیں ملیں۔’انہوں نے تو اپنے ہتھیاروں سے شناختی علامتیں بھی ختم کر دی تھیں‘۔

سینی نے مزید بتایا کہ حملہ کے شکار پولیس اسٹیشن کے اندر سے ملنے والی دو جی پی ایس ڈیوائسز میں انڈیا-پاکستان سرحد سے اس ریلوے ٹریک کا راستہ ملا ،جہاں سے پانچ بم برآمد ہوئے۔

سینی کے بیان سے لگتا ہے کہ پولیس سٹیشن پر حملہ کرنے والوں نے ہی مبینہ طور پر یہ بم نصب کیے تھے۔

پیر کو حملے کے بعد کچھ مبصرین نے قیاس آرائی کی تھی کہ یہ غیر معمولی حملہ 1980 کی دہائی میں انڈین حکومت سے لڑنے والے سکھ علیحدگی پسند تحریک کے دوبارہ سرا ٹھانے کی ایک نشانی ہو سکتی ہے۔

تاہم، بعض پولیس ذرائع الزام لگاتے ہیں کہ حملہ آور پاکستان سے جموں اور کشمیر کے راستے انڈیا میں داخل ہوئے۔

پاکستان نے پیر کو حملہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ہندوستانی عوام اور حکومت سے اظہار افسوس کیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے سینئر وزراء نے اب تک واقعہ پر تفصیلی بیان نہیں دیا۔