خراب گلے کے لیے اینٹی بائیوٹکس؟ سوچ لیں
اسلام آباد میں سورج چمک رہا تھا اور میں کسی میڈیکل اسٹور کی تلاش میں بلیو ایریا کی خاک چھان رہا تھا۔
میری ناک مسلسل بہہ رہی تھی جبکہ میری آنکھوں میں بھی جلن ہورہی تھی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد میرے جسم میں ہسٹامائن خارج ہونے کی وجہ سے گلا خراب ہوگیا۔ میں فوراً سمجھ گیا کہ مجھ پر الرجی کا مکمل حملہ ہوچکا ہے۔
جیسے ہی میں ناک کو تولیے سے ڈھانپے فارمیسی میں داخل ہوا، تو فوراً کئی سیلزمین میری طرف دیکھنے لگے۔
اس وقت میں میڈیکل کے فائنل ایئر کا طالبعلم تھا، اور ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی پروفیشنل زندگی شروع کرنے کے لیے بیتاب تھا۔ اس عالیشان فارمیسی میں داخل ہوتے ہی ایک سیلزمین میرے قریب آیا اور میری میڈیکل کے پسمنظر کو جانے بغیر صرف چند سوالات پوچھ کر ایک حیران کن نتیجے پر پہنچا:
"بھائی آپ کو اینٹی بائیوٹکس کا کورس لینا چاہیے، آپ فوراً آرام محسوس کریں گے۔"
نہ مجھے بخار تھا، نہ کھانسی، نہ انفیکشن، اور نہ ہی اس سے ملحقہ کوئی اور طبی مسئلہ، چنانچہ سیلزمین کی تجویز پر میں ٹھٹکا۔ اس سے بھی زیادہ غلط بات یہ ہے کہ زیادہ تر ڈاکٹر بھی یہی تجویز کرتے ہیں۔
مجھے غصہ تو بہت آیا، لیکن میں نے ایک گہرا سانس لیا اور تحمل سے جواب دینے کی ٹھانی۔ آخر وہ کیسے یہ بات نہیں جانتا تھا کہ بلا ضرورت اینٹی بائیوٹکس کے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟ افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر لوگ غیر ضروری اینٹی بائیوٹکس کے نقصانات سے آگاہ نہیں ہوتے۔
میرے معاملے میں میں پوسٹ نیزل ڈرپ اور الرجی کا شکار تھا، جس سے میرا گلا خراب ہوا تھا۔ لیکن اینٹی بائیوٹکس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جب اینٹی بائیوٹکس بلا ضرورت استعمال کی جائیں، تو ان کا آپ کو نقصان پہنچانے کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس لیے انہیں دھیان سے استعمال کرنا چاہیے۔ کسی بھی کیمیکل کو اپنے جسم میں اندھا دھند شامل کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کے مضر اثرات اس بلاگ میں نہیں سما سکتے، لیکن ان میں ڈائیریا، متلی، بھوک کی کمی، اور جان لیوا الرجیز بھی شامل ہوسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹکس کا بلا ضرورت استعمال آپ کے جسم میں موجود بیکٹیریا کو مضبوط بنا سکتا ہے جس سے مستقبل میں انفیکشنز کا علاج مشکل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ہم اینٹی بائیوٹکس کا بلا ضرورت استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں، اس لیے اب اس طرح کے جراثیم سر اٹھا رہے ہیں جو کئی دواؤں کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اور وسیع پیمانے پر جانی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ہم پہلے ہی جان لیوا اور دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا جیسے MRSA وغیرہ کی مچائی ہوئی تباہی دیکھ چکے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کتنا بڑھ چکا ہے، لیکن میں اپنے ذاتی تجربے کی بناء پر کہتا ہوں کہ یہ بہت عام ہے۔
خراب گلا
گلا کئی وجوہات کی بناء پر خراب ہوسکتا ہے جن میں دمہ، دل کی جلن، اور پوسٹ نیزل ڈرپ وہ وجوہات ہیں جو انفیکشن نہیں ہیں۔
امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق خراب گلے کی وجہ بننے والے بیکٹیریا 'اسٹریپ' صرف 10 فیصد لوگوں کی تکلیف کا ذمہ دار تھا، جبکہ خراب گلے کی شکایت کرنے والے 60 فیصد افراد کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئیں۔ آپ کے ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کے خراب گلے کی وجہ جاننے میں وقت صرف کریں۔
سردی، کھانسی، نزلہ و زکام، اور پھیپھڑوں کے ورم میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان میں سے زیادہ تر بیماریاں وائرس کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس طرح کی بیماریاں عام طور پر زیادہ پانی پینے، آرام کرنے، اور ٹائلینول جیسی دوائیں لینے سے ختم ہوجاتی ہیں۔ ان کے لیے اینٹی بائیوٹکس لینا نہ صرف بیکار ہے، بلکہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔
زیادہ تر ڈاکٹر اینٹی بائیوٹکس بلا ضرورت تجویز کر بیٹھتے ہیں کیونکہ ان کے مریضوں کو یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ اینٹی بائیوٹکس لینے سے ہی ٹھیک ہوں گے۔
بچوں میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے بیماری کی وجہ ضرور پوچھیں، اور اینٹی بائیوٹکس کے ممکنہ خطرات پر بھی بات کریں۔
ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے میں ہمیشہ اینٹی بائیوٹکس دینے میں بہت احتیاط سے کام لیتا ہوں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے ڈاکٹر بھی ایسا ہی کریں۔
عارف محمود میڈیکل ڈاکٹر ہیں، اور جنوب ایشیائی آرٹ، کلاسیکل میوزک، فوٹوگرافی، اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔