ارے یہ عمر اکمل کون ہے؟
آخر یہ لڑکا عمر اکمل ہے کون؟ ارے ہاں، یہ عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر کا داماد ہے۔ چھوٹے قد کا یہ لڑکا کہیں وہ تو نہیں جس نے اپنے بھائی کامران اکمل کی شادی پر ’فریڈ اسٹیئر‘ کے انداز میں ڈانس کیا؟ ارے نہیں، یہ تو وہ ہیں جو لاہور میں تمام ٹریفک سارجنٹس کے لیے ولن بنے رہے جو تیز رفتاری کے باعث ان کا شوق سے چالان کاٹتے رہے یا پھر اگر ان کی قسمت چمک اٹھے تو تیز رفتاری کے دوران دھمکی دینے کا چالان کاٹ سکیں۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ تھوڑی بہت بیٹنگ بھی کر لیتے ہیں! ہاں لیکن ٹیم کیلئے نہیں، صرف اپنے لیے۔ اور اس کا دورانیہ بھی محض دو اوورز کیلئے ہوتا ہے، چلیں تین اوورز لیکن یہاں قصہ تمام ہوجاتا ہے۔ انہیں وکٹ پر سیٹ ہو کر اپنی وکٹ تحفتاً دینے کا شوق ہے۔ اور پھر یہ آؤٹ ہونے کے بعد چہرے پر اپنے منفرد شکست خوردہ تاثرات کے ساتھ آپ کو بھی کیا خوب رلاتے ہیں۔
تو آخر پھر یہ سری لنکا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے اسکواڈ میں کیوں شامل ہیں؟ یہ یقیناً اپنی بیگنا کی وجہ سے تو نہیں ہیں، نہ ہی فیلڈنگ اور نہ ہی چہرے کے تاثرات بنانے کیلئے۔ تو پھر اندازہ لگائیں کہ کس لیے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک عرصے سے اپنے گمشدہ بھائی سورنگا لکمل سے ملنے کیلئے سری لنکا جا رہے ہوں جو شاید اپنا نام تبدیل کر کے سری لنکا ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ اکمل خاندان کے ایک اور فرد کو موقع دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
تاہم حاصل بحث یہ کہ عمر اب قومی اسکواڈ میں واپس آ گئے ہیں۔ کیوں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ کچھ ہو نہ ہو لیکن ان کے کریز پر رہتے ہوئے فیلڈنگ ٹیم کو کیچ پریکٹس کے بہت مواقع مل سکتے ہیں جسے وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ یا شاید وہ بیگ اٹھانے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں جو ایک چوئنگ گم کے بدلے اپنے کپتان شاہد آفریدی کا کٹ بیگ اٹھانا پسند کرتے ہیں جسے وہ فیلڈ کے دوران چباتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
لیکن حقیقتاً کیا ان کے پاس ڈومیسٹک سحو پر دکھانے کیلئے کچھ تھا کہ جس کی بنیاد پر انہیں دوبارہ پاکستانی ٹیم میں شامل کیا گیا؟ یقیناً نہیں کیونکہ وہ ایک انتہائی برے سامع ہیں۔ ان کے متعدد کوچز اور سینئر کھلاڑی بار بار کھیل پر توجہ دینے اور اہم مواقعوں پر وکٹ نہ گنوانے کی ہدایت کر چکے ہیں لیکن سب بیکار گیا۔
انہوں نے اکثر انہیں واپس ڈرائنگ بورڈ پر جانے کی ہدایت کی لیکن اس کے بجائے وہ مشہور ڈزنی جونیئر چینل پر ’آرٹ اٹیک‘ دیکھتے ہوئے پائے گئے۔ آپ جانتے ہیں وہ صرف ایک بچہ ہے جسے کوئی کارنامہ سرانجام دیے بغیر ہی ہر وقت خود کا پراعتماد اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والے ویسٹ انڈین سر ویوین رچرڈز سے موازنہ کرنے کا شوق ہے۔
تو کیا وہ کبھی اپنے ’ٹیلنٹ‘ کو میدان میں استعمال کرنے کا گر سیکھ سکیں گے؟۔ رمیز راجہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو عمر پر بہت یقین ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اس باصلاحیت بلے باز میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی اچھے بلے باز میں ہونی چاہئیں۔ لیکن رمیز نہیں جانتے کہ عمر پہلے ہی ایک بڑا اعزاز اپنے نام کر چکے ہیں۔ اپنے بھائیوں کامران اور عدنان کے ساتھ وہ کھیل کے تینوں فارمیٹ سے 99 بار ٹیم سے ڈراپ ہونے کا انوکھا اعزاز رکھتے ہیں۔
سری لنکا کے خلاف سیریز اس طرح کا 100واں موقع ہو گا۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسپورٹس ایڈیٹر ہیں.