چترال: راستے بدستور بند، امدادی سرگرمیاں جاری
پشاور: چترال کے علاقے مستوج کو جانے والے راستے بند ہونے کی وجہ سے مقامی افراد کو بدستور مشکلات کا سامنا ہے، راستے بند ہو نے کے باعث متاثرین پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
چترال میں سیلاب سے کئی علاقوں کا رابطہ دیگر مقامات سے منقطع ہو گیا تھا جس کی بحالی نہیں ہو سکی ہے اسی وجہ سے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
رابطہ پل اور سڑکیں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد لوگوں اپنے علاقوں میں محصور ہوگئے ہیں۔
بیشتر علاقوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث متاثرین حکومتی امداد سے بھی محروم ہیں۔
کچھ لوگ دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔
بعض علاقوں میں متاثرین پہاڑوں اور غاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد کھلے آسمان تلے بے یارو مدد گار ہے۔
وقفے وقفے سے جاری بارشیں اور ندی نالوں میں طغیانی ان کی دشواریوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔
سڑکیں اور رابطہ پل ٹوٹنے سے امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت اور فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
پاک فوج محصور افراد کو نکالنے میں مصروف ہے۔
سیلاب نے جہاں لوگوں کی زندگی مفلوج کر دی ہے تو وہی طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں بھی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہیں۔
فوج کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ چترال میں پھنسے ہوئے 30 افراد کو آرمی ایوی ایشن ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکالا گیا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ نکالے گئے افراد میں سیاح اور مریض شامل تھے جنہیں پشاور منتقل کر دیا گیا۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں خوراک کی تقسیم، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔
چترال اسکاؤٹس کے کمانڈنٹ نعیم اقبال نے ڈان نیوز سے بات چیت میں 31 افراد کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی تھی۔
چترال کی 54 فیصد زرعی اراضی سیلاب کی نذر ہوچکی ہے۔
6 پن بجلی گھر زد میں آئے جس سے بجلی کی فراہمی بند ہو گئی۔
38 سڑکیں بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئی۔
پانی کے تیز ریلوں 17 گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
600 کے قریب مکانات اور 30 دکانیں بھی تباہی کا شکار ہو چکی ہیں۔