نقطہ نظر

اقتصادی راہداری منصوبہ: چین کی دلچسپی کیوں؟

چین کو اتنے عالیشان منصوبے سے کیا دلچسپی ہے اور وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں کیوں کر رہا ہے؟

آج کل نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا چرچا ہے۔ لیکن اصل بات پاکستان کی معاشی ترقی کی ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اور آخر ہمارے ہمسائے ملک بھارت کو کیا خدشات ہیں کہ جس نے اس راہداری کی مخالفت کر دی ہے اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس منصوبے سے نہ صرف پاکستان کو دنیا بھر میں اعلیٰ مقام ملے گا بلکہ ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدن پاکستان کی معیشت پر شاندار اثرات بھی ڈالے گی۔ پاکستان میں معاشی انقلاب برپا کرنے والا یہ منصوبہ نہ صرف ایک شاہراہ ریشم کو جنم دے گا جو تجارت کو محفوظ، آسان، اور مختصر بنائے گی، بلکہ اس کے ساتھ ہی گوادر کو ایک انتہائی اہم مقام میں تبدیل کر دے گا جس کی جستجو ترقی یافتہ ممالک کرتے ہیں۔

اب ذرا بات کی جائے کہ آخر چین کو اتنے عالیشان منصوبے سے کیا دلچسپی ہے، اور وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں کیوں کر رہا ہے، وہ بھی تب جب پاکستان کے حالات کوئی قابل فخر نہیں ہیں، یا تسلی بخش بھی نہیں کہلائے جا سکتے۔ اس منصوبے اور اتنی بڑی سرمایہ کاری کے پیچھے صرف پاک چین دوستی ہی نہیں بلکہ چین کے اپنے مفادات بھی ہیں۔

پڑھیے: نئی شاہراہِ ریشم میں پاکستان کا فائدہ کتنا؟

چین میں استعمال ہونے والا 80 سے 85 فیصد تیل بحری جہازوں کے ذریعے آبنائے ملاکا سے گزرتا ہے، نیز مشرقِ وسطیٰ، یورپ، اور افریقہ سے چین کی بیشتر تجارت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے۔ چین عسکری و معاشی لحاظ سے سپر پاور بن رہا ہے اور اسی لیے امریکا سے اس کے تصادم کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ امریکا کے طیارہ بردار اور جنگی بحری جہاز زیادہ تر آبنائے ملاکا میں موجود رہتے ہیں، اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین کے مخالف ملک تائیوان کی طاقتور بحریہ دوران جنگ آبنائے ملاکا کی ناکہ بندی کر کے چینی حکومت کو مفلوج کر سکتی ہے۔

اس لیے چینی حکومت ایسے محفوظ زمینی راستے کی تلاش میں ہے جہاں امریکا یا تائیوانی بحریہ اس پر حملہ نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ عرب امارات سے تیل پہنچانے والے مال بردار بحری جہاز بحر ہند سے ہوتے بحر الکاہل پہنچتے ہیں، اور پھر منزلِ مقصود بیجنگ تک پہنچتے ہیں۔ اس راستے کی طوالت 13 ہزار کلومیٹر ہے، مگر جب یہی مال بردار جہاز گوادر پر لنگر انداز ہو تو وہاں سے تیل یا سامان محض 6 ہزار کلومیٹر کا راستہ طے کر کے بیجنگ پہنچ سکتا ہے، جس سے کم ازکم ساڑھے 6 ہزار کلومیٹر کی بچت ہو گی۔ اس منصوبے کو چینی کمپنیاں پایہ تکمیل تک پہنچائیں گی جس سے ہزاروں پاکستانیوں کو بھی روزگار میسر ہوگا۔ مگر بات صرف گوادر کی بندرگاہ تک محدود نہیں، اس میں اور منصوبے بھی شامل ہیں جن پر 5 ارب ڈالر کا زر کثیر خرچ ہوگا۔

مزید پڑھیے: چین ہمارا سچا دوست، کیا واقعی؟

یہی وجہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، جس میں امریکا بھی سرِفہرست ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد امریکا کو اپنی سپر پاور کا سورج غروب ہوتا نظر آرہا ہے اور بھارت تو ہے ہی پاکستان کا ازلی دشمن، وہ پاکستان کی اتنی بڑی ترقی کو آسانی سے ہضم نہیں کرسکتا۔ چین نے اقوام متحدہ اور ایف اے ٹی (آسٹریلیا) میں ویٹو پاور سے بھارت کے سب سے بڑے حملے ناکام بنائے جس سے بھارت کی پاکستان کو دہشتگرد قرار دلوانے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی۔

پاک چین دوستی میں اس وقت باہمی تجارت کے حجم میں چین کا پلڑا بھاری ہے اور آئندہ تین برسوں میں باہمی تجارت کا حجم 20 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کی درآمدات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، آئندہ تین برسوں میں پاکستان کی برآمدات برائے چین کے لیے بھی کئی گنا اضافہ ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کی مقامی صنعتوں کو فروغ مل سکے، اور پاکستانی تاجر نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں۔

جانیے: 'اقتصادی راہداری سے 3 ارب افراد کو فائدہ ہوگا'

اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ چین سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چین نے 1500 پاکستانی طالبعلموں کو وظیفے کی پیشکش کر رکھی ہے جس میں مزید اضافے کے ساتھ چین سے ٹیکنالوجی اور جدید علوم سیکھنے کے لیے جانے والے طالب علموں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی ضرورت ہے۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ وہ اپنی تجارت کو فروغ دے کر سپر پاوربننے کی تیاری کر رہا ہے، اور پاکستان اس کا ہم سفر ہے۔ معاشی سرگرمیوں سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے اور پاکستان علاقائی تجارت کا مرکز بن سکتا ہے۔ کسی بھی ملک و قوم کی تاریخ میں ایسے مواقع شاید ہی آتے ہیں جیسا شاندار موقع پاکستان کو ملا ہے۔

چین نے اپنی معاشی پالیسی کے 4 اہداف مقرر کیے ہیں، جن میں ایشیاء اور یورپ میں رابطے میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا قیام، آزادانہ تجارت کا فروغ، اور عوام کے باہمی رابطے شامل ہیں۔ خوش قسمتی سے پاکستان ان چاروں اہداف پر پورا اترتا ہے، جس کی وجہ سے چین، پاکستان میں دوسرے ممالک کی بہ نسبت سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہا ہے۔ چین وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی، اور اب بھی بجلی کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے۔

پڑھیے: تعصب کی عینک اتار پھینکیں

عسکری قیادت برملا اس بات کا اظہار کر چکی ہے کہ اس منصوبے کی طرف میلی آنکھ برداشت نہیں کی جائے گی۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی اس منصوبے کے خلاف چھیڑی گئی سرد جنگ کا بھرپور مقابلہ کریں تاکہ پاکستان اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شاندار موقع سے اپنی معاشی تقدیر بدل سکے۔ کیونکہ اس طرح کے مواقع بار بار دروازے پر دستک نہیں دیتے۔

عائشہ چوہدری

لکهاری پنجاب یونیورسٹی سے کامرس میں پوسٹ گریجویٹ ہیں اور معاشیات پر لکهتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔