نقطہ نظر

جانور پالیں اور ڈپریشن دور بھگائیں

جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ وقت گزارنے اور انہیں پیار کرنے سے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

انسان کا جانوروں اور پرندوں سے تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان سے انسان کا۔ پرانے دور میں جانور اور پرندے بار برداری، سواری، رکھوالی، شکار میں مدد، خوراک کے حصول جیسے اہم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے پالے جاتے تھے مگر موجودہ دور میں انہیں فوائد کے ساتھ ساتھ شوقین مزاجی کے لیے بھی پالا جاتا ہے بلکہ شہری علاقوں میں خاص طور پر شوقین مزاجی کا عنصر غالب ہے۔ مغرب کی دیکھا دیکھی جانور پالنا ہمارے معاشرے میں بھی فیشن کی علامت بنتا جا رہا ہے۔

ویسے تو بہت سے جانور ہیں جو گھروں کی زینت بنتے ہیں مگر یہاں ہم چند اہم جانوروں اور پرندوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنہیں گھروں میں پالا جا سکتا ہے۔ آپ اپنی رہائش اور اپنے بٹوے میں پڑے نوٹوں کو مدنظر رکھ کر ان میں سے کسی بھی جانور کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

گھوڑا

گھوڑے کو جانوروں میں انسان کا سب سے پرانا دوست بھی کہا جاتا ہے۔ پرانے دور سے ہی دور دراز علاقے کے سفر سے لے کر جنگ کے میدان تک گھوڑوں نے انسان کا ساتھ خوب نبھایا ہے، خصوصاً جنگ کے میدان میں گھوڑے کی وفاداری اس بڑھ کر کیا ہوگی کہ یہ اپنے مالک کو ہر وار سے بچانے کی کوشش کرتا تھا۔

تقریباً ہر قوم اور تہذیب میں گھوڑوں کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔ عرب میں تو ہر گھوڑے کا نام رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا پورا شجرہ نسب تک یاد رکھا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں بھی سربراہانِ مملکت اور امراء کی عزت و توقیر کے لیے انہیں بگھیوں میں سوار کروا کر تقریبات میں لایا جاتا ہے۔ لیکن گھوڑا پالنا ایک مہنگا شوق ہے۔ اگر آپ اسے اپنے گھر کی زینت بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے زیادہ جگہ اور ماہانہ خرچ کے لیے ایک بڑی رقم درکار ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں انہیں گھروں میں پالنا مشکل ہوگیا ہے اور اب یہ خوبصورت جانور وزیروں مشیروں اور جاگیرداروں کے فارم ہاؤسز کی زینت بننے تک محدود ہو چکا ہے۔

کتا

ویسے تو کتا رکھوالی کرنے کے کام آتا تھا مگر مغربی ممالک میں اس جانور کی جتنی آؤ بھگت کی جاتی ہے شاید ہی کسی اور جانور کے نصیب میں ہو۔ ہمارے معاشرے میں کتا معیوب جانور سمجھا جاتا تھا اور کتے کے قریب سے گزرنے کی دیر تھی کہ لوگ پتھر اٹھا لیا کرتے تھے، مگر اب مغربی ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی پوش علاقوں میں کتا معتبر جانا جانے لگا ہے اور اسے گھروں میں پالنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔

سیاستدانوں اور اشرافیہ کے لیے تو کتا ایک بہترین تحفہ بھی ہے اور چند ایک سیاست دان تو کتا بطور تحفہ وصول کرنے پر میڈیا کی زینت بھی بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں کتوں کی جو نسلیں گھر میں رکھنے کے لیے عام ہیں ان میں لیبراڈور، جرمن شیفرڈ، بیلجیئم شیفرڈ، روٹ ویلر، رشین اور پوائنٹرنمایاں ہیں۔ آپ ان میں سے کسی بھی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

کتے قیمت میں گھوڑوں سے سستے ہیں، کتوں کی قیمتیں نسل کے اعتبار سے 20 ہزار روپے سے شروع ہو کر 2 لاکھ تک جاتی ہیں اور ایک کتے پر آنے والا خرچہ تقریباََ 3 ہزار روپے سے 5 ہزار روپے تک ہے، جبکہ مکمل ویکسینیشن پر 10 ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں۔

گھریلو کتوں کو ابلا ہوا گوشت، ڈاگ فوڈ اور دودھ وغیرہ بطور خوراک دیے جاتے ہیں۔ کتے ذہین جانور ہیں لہٰذا ان کی تربیت کے لیے کتے کے ساتھ روزانہ مختلف گیمز کھیلیں، انہیں گراؤنڈ میں لے جائیں، گیند یا لکڑی پھینک کر انہیں کھیلنے کی تربیت دیں۔ اس سے نہ صرف ان کا ذہن تیز ہو گا بلکہ جسمانی طور پر بھی ہشاش بشاش رہیں گے۔ گھر پر پالنے کے دوران اگر ان کی مناسب خوراک، دیکھ بھال اور تربیت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ دوسروں کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

بلی

نرم و نازک اور معصوم نظر آنے والی بلیاں ایک بہترین پالتو جانور ہیں۔ بلی سے آپ جتنا پیار کریں گے یہ آپ سے بھی اتنا ہی پیار کرے گی، آپ جب بھی گھر آئیں گے یہ آپ کی منتظر ہوگی، آپ سے خوب پیار لے گی اور کھیلے گی۔ بلیوں کو پسند کیے جانے کی ایک بڑی وجہ ان کی خود کو صاف رکھنے کی عادت بھی ہے۔ یہ روزانہ اپنی زبان سے اپنے پنجوں اور جسم کے مختلف حصوں کو صاف کرتی ہیں۔

شکل و صورت سے بھولی بھالی نظر آنے والی بلیوں کا تعلق دراصل دنیا کے بہترین شکاری جانوروں سے ہے۔ شیر اور چیتے کی طرح گھریلو بلیاں بھی شکار کا پیچھا کرتی ہیں، اس سے کھیلتی ہیں مگر انہیں مارنے کے بعد کھاتی نہیں ہیں۔ گھر میں کوئی چوہا یا کیڑا نظر آنے کی دیر ہے کہ بلی فوراً اس پر لپکے گی۔

ہمارے ہاں پرشین، سیامی، ٹرکش اور رشین بلی گھروں میں پالی جاتی ہیں مگر لمبے بالوں، بڑے اور نمایاں چہرے کی وجہ سے پرشین بلی زیادہ مقبول ہے۔ سیامی اور رشین کی قیمت 15 سو سے 4 ہزار تک اور پرشین کی قیمت 5 ہزار سے 12 ہزار روپے تک ہے، جبکہ فینسی قسم کی بلیوں کی قیمت 20 ہزار سے زائد ہے۔

ایک بلی کی خوراک پر آنے والا ماہانہ خرچ 800 روپے سے 1300 روپے تک ہے۔ گھریلو بلیوں کو گوشت اور دودھ زیادہ مقدار میں نہیں دینا چاہیے، خاص طور پر پرشین بلی کو، کیونکہ الرجی یا ان کے بال گرنے کا خدشہ رہتا ہے۔ گوشت روزانہ کے بجائے ہفتے میں چند ایک بار، وہ بھی چھوٹے گوشت کا اور ابلا ہوا ہونا چاہیے۔ کتوں اور بلیوں کو ابلا ہوا گوشت دینے کی وجہ انہیں کاٹنے کی عادت سے بچانا ہے۔ کتوں کی طرح بلیوں سے بھی روزانہ مختلف کھیل کھیلیں، انہیں اپنے پاس بٹھائیں اور ان کے چہرے، گردن اور پیٹھ پر خوب پیار کریں، اس طرح آپ کی بلی چست اور توانا رہے گی۔

طوطے

طوطے ان پرندوں میں سے ہیں جو کہ سبز، پیلے، سفید، نیلے سمیت دیگر رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔ انسانوں کی طرح بولنے والے طوطوں کی نسلیں گھروں میں کثرت سے پالی جاتی ہیں، خصوصاََ کراچی میں طوطے پالنے کا رواج زیادہ عام ہے۔ آسٹریلین نسل کے چھوٹے طوطے تو گھروں میں محض پنجروں کی زینت ہیں مگر بڑے سائز کے طوطے عام بولنے کی صلاحیت کے باعث گھر والوں سے اتنے مانوس ہو جاتے ہیں کہ جیسے گھر کا ہی فرد ہوں۔

ان کی قیمتیں بھی سائز اور نسل کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ چھوٹے طوطے تو چند سو روپے میں خریدے جا سکتے ہیں مگر نایاب نسل کے مکاؤ، کوکیٹو اور گرے پیرٹ کی قیمتیں 40 ہزار روپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک ہیں۔

طوطے ہیں تو مہنگے، البتہ ان پر خوراک اور دیکھ بھال کی مد میں آنے والا ماہانہ خرچ باقی پالتو جانوروں اور پرندوں کی نسبت کافی کم ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ طوطے پھل، سبزی، اناج، اور روٹی وغیرہ بھی شوق سے کھاتے ہیں۔

گھروں میں پالے جانے والے پرندے ہوں یا کوئی بھی جانور، ان کی طبیعت بے حد حساس ہوتی ہے۔ ان کی چھوٹے بچوں کی طرح بھرپور دیکھ بھال کریں، ان کی خوراک اور آرام کا خیال رکھیں، شور اور آلودگی سے بھی بچائیں تو ان کا موڈ بھی ٹھیک رہے گا۔ جانوروں اور پرندوں سے چھوٹے بچوں کو دور رکھنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ جانور کتنا بھی مانوس ہو جائے ہے تو جانور ہی، اس حوالے سے آپ کی ذرا سی لاپرواہی بچے اور جانور دونوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

جدید تحقیق سے ثابت ہے کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ وقت گزارنے اور انہیں پیار کرنے سے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ عزیزوں اور رشتہ داروں کی ٹینشن پالنے کے بجائے کتا پالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ بھی گھر میں موجود جانور کے ساتھ وقت گزاریں، اسے کھانا دیں، اور اس کا اپنے گھر کے فرد کی طرح خیال رکھیں۔ اس کی معصوم شرارتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ اپنی پریشانیاں بھول جائیں گے۔

وقاص محمود

وقاص محمود ماس کمیونیکیشن اینڈ میڈیا میں ماسٹرز کر چکے ہیں اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر Waqas436@ کے نام سے لکھتے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس Waqas.436@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔