بحریہ ٹاؤن کے خلاف سرکاری زمین پر قبضے کا مقدمہ درج
راولپنڈی: پنجاب کے محکمہ جنگلات کی شکایت کے 10 سال کے بعد بحریہ ٹاؤن کے خلاف ملازمین کے اغواء، غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور سرکاری زمین پر قبضے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
11 اکتوبر 2005 کو ایک محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ افسر جمیل احمد نے پولیس کو ایک شکایت درج کراوئی تھی کہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ لوئی بھر میں سرکاری زمین سے درخت کاٹ کر زمین صاف کر رہی ہے۔
درج ہونے والے مقدمے کے مطابق اس شکایت کے درج ہونے کے تین دن بعد بحریہ ٹاؤن کی انتظامی ٹیم نے کیپٹن (ر) شاہد کی سربراہہ میں ایک بار پھر درخت کاٹے اور محکمہ جنگلات کی زمین پر قبضہ کیا گیا۔
اسی سال 28 اکتوبر کو بحریہ ٹاؤن کے حکام نے بھاری مشینری کے ذریعے درخت کاٹے اس دوران ان کی محکمہ جنگلات کی انتظامی اہلکاروں سے معمولی تصادم بھی ہوا۔
محکمہ جنگلات کی درج ہونے والی شکایت میں مزید کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور محکمے کے ملازمین میں ہونے والے تصادم کے بعد جب مذکورہ مقام پر پہنچے تو بحریہ ٹاؤن کے ملازمین جا چکے تھے البتہ ان کی ایک مشین اس وقت بھی وہاں موجود تھی جس کو محکمہ جنگلات نے تحویل میں لے کر سیل کر سیل کر دیا تھا البتہ تھوڑی دیر بعد ہی بحریہ ٹاؤن کے 100 سے زائد ملازمین دوبارہ وہاں آگے اور محکمہ جنگلات کے ملازمین پر تشدد شروع کر دیا جبکہ دو ملازمین کو اپنے ساتھ اغواء کرکے لے گئے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مغوی ملازمین کو 2 گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا ، دو گھنٹے بعد ملازمین اس مقام سے فرار ہو گئے البتہ بحریہ ٹاؤن کے حکام نے ان کے شناختی کارڈ چھین لیے تھے۔
محکمہ جنگلات کی اس ابتدائی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس معاملے پر مقدمہ درج نہ کیے جانے پر سپریم کورٹ کی جانب سے پولیس سے بھی جواب طلبی کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک محمد شفیع کی جانب سے 2009 میں دائر کی گئی ایک درخواست پر سرکاری زمین پر قبضے کا سو موٹو نوٹس لیا تھا۔
انہوں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے راکھ تخت پری میں 1416 ایکڑ زمین سے جنگلات کاٹ کر زمین پر قبضہ کیا ہے جس میں محکمہ ریونیو کے حکام بھی ملوث تھے۔
مقدمہ ائر پورٹ تھانے میں درج کیا گیا ہے اس مقدمے کی تفصیل سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی۔