کھولا بیلٹ باکس، نکلا شیر

پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ 14 اگست سے تبدیلی کے انتظار میں تھی اور اس تبدیلی کے لیے عوام کی بہت بڑی تعداد نے 126 دن تک دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا، جو کہ بوجہ 16 دسمبر کو پیش آنے والے سانحہ پشاور کے بعد ختم کیا گیا۔
دھرنا ختم کرنے کے بعد تبدیلی کے خواب دیکھنے والوں نے کامیابی کی پہلی سیڑھی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن کو سمجھا۔ جس کی شرائط طے کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مابین کئی لاحاصل مذاکرات ہوئے اور بالآخر دونوں جماعتیں مشترکہ نقاط پر متفق ہوئیں۔
دھرنے کے دوران اور پھر بعد میں بھی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور متعدد دیگر رہنماؤں کی جانب سے ہزاروں بار 2013 کے انتخابات میں ہونے والی منظم دھاندلی کے ثبوت ہونے کے دعوے کیے گئے۔
پھر جوڈیشل کمیشن کی کارروائی 16 اپریل کو شروع ہوئی۔ جس کے 39 اجلاسوں میں 69 گواہ پیش کیے گئے۔
جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کے دوران عمران خان سمیت تحریک انصاف کے حامیوں کو یقین تھا کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا اور فیصلہ آنے کے بعد نواز حکومت کی چھٹی ہوجائے گی، جس کے نتیجے میں اسی سال دوبارہ انتخابات ہوں گے، جس میں تحریک انصاف کلین سویپ کرتے ہوئے وفاق میں حکومت بنائے گی۔
پڑھیے: اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو؟
پھر تھا جس کا انتظار
آگیا وہ شاہکار
جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آگیا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں کارروائی کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے فیصلہ دیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے منظم دھاندلی سے متعلق تمام الزامات غلط ہیں اور ان انتخابات میں بدانتظامی تو ضرور ہوئی ہے لیکن اسے منظم دھاندلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس فیصلے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی عمران خان سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں نے اس فیصلے کو قبول کیا اور عمران خان کی جانب سے بیان دیا گیا کہ وہ اس فیصلے پر تبصرہ بعد میں کریں گے۔
خان صاحب، اب تبصرہ کرنے کو بچا ہی کیا ہے؟ آپ نے تحریک انصاف کے حامیوں کو اور کتنا شرمندہ کروانا ہے؟ پہلے آپ نے 14 اگست کو لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ اور 126 دنوں تک اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے میں لوگوں کا وقت اور پیسے ضائع کیا، اس کا حساب کون دے گا؟
آپ نے قوم کی نوجوان نسل کو تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے گمراہ کیا۔ اپنے جھوٹے دعووں کو بنیاد بناتے ہوئے تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ اگر آپ کے پاس ثبوت نہیں تھے تو الزامات لگائے ہی کیوں تھے؟
دھرنے کے دوران ہزاروں نوجوان پورے ملک سے اسلام آباد پہنچے اور ڈی جے بٹ کی انتہائی غیر مدھر دھنوں پر تھر تھرائے۔ اس کا حساب کون دے گا؟
یہ پڑھیں: عمران خان کا سیاسی مستقبل 'سیاہ' ہے: جاوید ہاشمی
پوری قوم کو آپ نے بذریعہ میڈیا یرغمال بنائے رکھا اور خُود آپ عشق لڑانے میں مصروف رہے۔ آپ نے نوجوانوں کو جیو کے خلاف بھڑکایا اور خواتین اینکرز کو ہراساں کروایا۔ آپ ذرا تو سوچیں کہ جس خاتون سے آپ نے شادی کی ہے وہ بھی ایک اینکر ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی وہی سلوک کرتا تو آپ پر کیا گزرتی؟
نجم سیٹھی پر 35 پنکچرز لگانے کا الزام لگایا اور بعد ازاں آپ کے ثبوتوں میں ہی پنکچرز نکل آئے۔ کہاں گئی وہ مبینہ آڈیو ریکارڈنگ؟ آپ کے وکیل نے تو جوڈیشل کمیشن میں 35 پنکچرز کا سوال کرنا تک گوارہ نہیں کیا۔
آپ ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ 1970 کے بعد پاکستان میں کوئی انتخابات منصفانہ ہوئے ہی نہیں۔ مگر کبھی بھی کسی بھی الیکشن کے بعد دھاندلی کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔
خان صاحب، اب جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آگئی ہے۔ اس کا مطلب کہ نواز حکومت من و عن عوامی مینڈیٹ رکھتی ہے اور آپ نے نواز حکومت کو ایسا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا۔ جس کی بنیاد پر نواز لیگ اگلے تین سال اسمبلی میں گرجے گی، برسے گی اور با آوازِ بلند کہے گی کہ 1970 کے انتخابات کے بعد ہونے والے سب سے منصفانہ انتخابات 2013 میں ہوئے۔ جس میں نواز لیگ جیتی۔
یہ پڑھیں: 2013 کے الیکشن منصفانہ نکلے، نواز شریف
عمران خان صاحب، آپ کی طرف سے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس ریٹائرڈ رمدے پر ریٹرننگ افسران کے ذریعے دھاندلی کروانے کے الزامات لگائے۔ مگر ثبوت نہیں پیش کیے گئے۔ حتٰی کہ انہیں گواہ کے طور پر جوڈیشل کمیشن میں جراح کے لیے بلایا ہی نہیں گیا۔ اب بھگتیں ہتکِ عزت کے دعوے کو۔
خان صاحب، جوڈیشل کمیشن میں تحریک انصاف کی جانب سے مایہ ناز وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کو بھیجا گیا۔ خان صاحب اگر وہ اتنے ہی قابل ہوتے تو اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو نا بچا لیتے؟
خان صاحب، اب آپ ایک مرتبہ سوچ لیں کہ آپ نے کرنا کیا ہے؟ کمیشن کی رپورٹ کے بعد نواز حکومت تو کہیں جانے والی نہیں اور 2018 کے انتخابات کا پتہ نہیں کہ آپ جیت سکتے ہیں کہ نہیں۔
آخر میں آپ سے اتنا سا التماس ہے کہ نوجوانوں کو مزید بیوقوف بنانا چھوڑ دیں اور اگلے تین سال اپنے آپ کو غیر سیاسی لوگوں اور پیشہ ور سیستدانوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔ آپ کے لیے یہی بہتر ہوگا۔
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com