پاکستان

'کیا ڈی ایچ اے حکومت کو جوابدہ ہے؟'

سپریم کورٹ نے یہ سوال ڈاڈھوچہ ڈیم کے لیےمختص زمین پر ڈی ایچ اے کی اسکیم کی تعمیر کے خلاف ایک شکایت کی سماعت کےدوران کیا۔

اسلام آباد: پاک فوج کا ریئل اسٹیٹ کا ایک ادارہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، کیا کسی نگرانی کے بغیر کام کررہا ہے یا یہ وفاقی حکومت کو جوابدہ ہے۔

کل یہ سوال سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کے سامنے رکھا گیا۔

مجوزہ ڈاڈھوچہ ڈیم سے ملحق جھیل کے لیے مختص زمین پر ڈی ایچ اے وادی کی تعمیر کے خلاف دائر کی گئی ایک شکایت کی سماعت کے دوران ڈی ایچ اے کی حیثیت زیرِ بحث آئی۔

واضح رہے کہ 16 جولائی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تھا کہ آخر کیوں ڈیم کے لیے مختص علاقے پر ایک رہائشی اسکیم کی غیر مجاز تعمیر کی انکوائری جوالائی 2012ء سے زیرِ التواء پڑی ہوئی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈاڈھوچہ ڈیم کا منصوبہ جڑواں شہر کے باشندوں کو پانی کی فراہمی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مجوزہ ڈیم، روال ڈیم کی جگہ لینے والا تھا، جس کی متعین عمر اس سال کے دوران ختم ہوجائے گی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس دوست محمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے اس دو رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔

اس سماعت کے دوران نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈاڈھوچہ ڈیم کے اس تنازعے سے نمٹا جارہا ہے۔

یہ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

حکومتِ پنجاب کی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے نائب صدر میجر جنرل ہمایوں عزیز نے وزیراعلیٰ پنجاب سے تین مارچ 2015ء کو ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کےد وران ڈی ایچ اے کے نائب صدر نے ڈاڈھوچہ گاؤں کے قریب محکمہ آبپاشی کی جانب سے لنگ دریا پر ڈیم کی تعمیر کی تجویز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس جھیل کی وجہ سے ڈی ایچ اے کا ایک بڑا حصہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔

میجر جنرل ہمایوں عزیز نے ڈاڈھوچہ گاؤں سے لگ بھگ تین کلومیٹر کے فاصلے پر دریا کے بالائی حصہ پر ڈیم کے لیے متبادل مقام کی تجویز پیش کی۔

اس تبادلۂ خیال کے بعد وزیراعلیٰ نے پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کے حل کے لیے ڈی ایچ اے کے نائب صدر کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کریں۔

اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد میجر جنرل ہمایوں عزیز کی سیکریٹری آبپاشی کے ساتھ 3 اپریل کی ملاقات کےد وران یہ فیصلہ کیا گیا کہ متبادل مقام کا ایک فزیبیلیٹی مطالعہ تیار کیا جائے۔

پنجاب کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے عدالتی بینچ کو بتایا کہ یہ فزیبیلیٹی مطالعہ 31 جولائی کو مکمل ہونے کا امکان ہے۔

رزاق اے مرزا کے بیان کے بعد جسٹس جواد ایس خواجہ نے یاد دلایا کہ اس سے قبل حکومتِ پنجاب کا یہ مؤقف تھا کہ ڈیم کا مقام تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب کے چیف سیکریٹری نے عدالت میں ایک رپورٹ دو مرتبہ جمع کرائی تھی جس میں حکومتِ پنجاب نے ڈیم کو کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی تجویز دوٹوک انداز میں مسترد کردیا تھا۔

اس موقع پر جسٹس دوست محمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’بظاہر ایک باوردی جنرل کے ساتھ وزیراعلیٰ کی ملاقات کے بعد ذہن تبدیل ہوگیا۔‘‘

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ڈی ایچ اے اسلام آباد کے نائب صدر میجر جنرل ہمایوں عزیز آخر کس طرح وزیراعلیٰ پنجاب کو پانی کے ذخیرے کی جگہ کی تبدیلی کے لیے کہہ سکتے ہیں، جو راولپنڈی شہر کے لاکھوں باشندوں کو پانی فراہم کرے گا۔

انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا کہ ’’کیا ڈی ایچ اے حکومت یا کسی اور ادارے کو جواب دہ ہے؟‘‘

اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ فوج کے ایک ماتحت جنرل کی سربراہی میں ڈی ایچ اے ایک قانونی ادارہ ہے۔ تاہم یہ دونوں قانونی افسران یہ واضح نہیں کرسکے کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی جانچ پڑتال کا کوئی اختیار رکھتی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈی ایچ اے کے ایکٹ 2013ء کے تحت یہ اتھارٹی شہیدوں کے سوگوار خاندانوں، جنگ میں زخمی اور معذور ہوجانے والوں اور مسلح افواج کے عہدے داروں کو رہائش کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

اس کے جواب میں عدالتی بینچ نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی مختلف رہائشی اسکیموں میں سوگوار خاندانوں، زخمیوں اور معذوروں کو الاٹ کی گئی زمین کے بارے میں تفصیلات فراہم کرسکتی ہے۔

عدالتی بینچ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ کیا ڈی ایچ اے کسی اتھارٹی کو جوابدہ ہے یا نہیں۔

اس کے بعد یہ مقدمہ 10 اگست تک کے لیے ملتوی کردیا گیا، جب عدالت کے حکم پر حکومت مطلوبہ تفصیلات فراہم کردے گی۔