پاکستانی ڈاکٹرز نے نگلیریا کی دوا دریافت کر لی
کراچی: پاکستان کے نجی تعلیمی ادارے آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹرز نے ان لیوا وائرس نگلیریا (دماغ خور امیبا) کو ختم کرنے کے لیے دوا دریافت کر لی ہے۔
آغا خان یونیورسٹی کے بائیوجیکل اور بائیوجیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے سینئر ڈاکٹر نوید احمد خان اور ڈاکٹر عبدالمنان بیگ کی سربراہی میں کام کرنے والی ریسرچ ٹیم نے یہ دوا پانچ سال تک تجربات کے بعد دریافت کی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جو دوا امیبا کے علاج کے لیے دریافت کئی گئی ہے وہ پہلے سے نگلیریا فاؤلری خاندان سے تعلق رکھنے والی متعدد بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر احمد خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد کھانوں اور ادویات کو امیبا کے علاج کے لیے استعمال کیا جن میں تین ادویات اس بیماری کے خلاف انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر احمد کا کہنا تھا کہ مذکورہ ادویات آئندہ سال سے اس بیماری کے خلاف استعمال کی جائیں گی۔
انھوں ںے کہا کہ اس بیماری میں سب سے بڑی دشواری دوا کا فوری طور پر دماغ تک پہنچانا تھا جس کا طریقہ کار اب دریافت کرلیا گیا ہے۔
ڈاکٹر احمد نے کہا کہ مذکورہ ادویات پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے استعمال کیا جارہی ہیں تاہم لاعلمی کی وجہ سے وہ کئی قیمتی جانوں کو بچانے میں کام نہ آسکیں۔
ڈاکٹرز کی جانب سے ناصرف علاج کے لیے دوا کے دریافت کرنے پر توجہ دی گئی ہے بلکہ دوا کو فوری طور پر دماغ تک پہنچانے کے حوالے سے بھی تجربات کیے جاتے رہے۔
ڈاکٹر احمد کے مطابق پرائمری اموبیک میننجوینسی فالیٹس (پی اے ایم) نامی بیماری سے شرح اموات دنیا بھر میں 95 فیصد جب کہ پاکستان میں 100 فیصد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سامنے آنے والے پی اے ایم کیسز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ متاثرہ مریضوں کو تیراکی کو شوق نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اس بیماری کا شکار ہوئے۔
ڈاکٹر احمد نے خبردار کیا کہ آئندہ سالوں میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ گلوبل وارمنگ کے باعث بڑھنے والی گرمی ہے۔
واضح رہے کہ گرم موسم میں امیبا کا باعث بننے والے وائرس کی افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پانی میں نگلیریا فاؤلری کا موجود ہونا معلومات یا احتیاطی تدابیر کی کمی، صحت کی سہولیات کے ملک کو درپیش مسائل اور علاج کے لیے ادویات کی کمی اس بیماری کے بڑھنے کی وجوہات ہیں۔