پاکستان

اسلام آباد میں ’غیرت بریگیڈز‘ سرگرم

سپرمارکیٹ کے اطراف اشتہاری بورڈز پر خواتین ماڈلز کے چہروں کو راتوں رات سیاہ کردیا گیا۔

اسلام آباد: 'غیرت بریگیڈز' کے نام سے 2007ء میں شہر میں نصب اشتہاری بورڈز پر خواتین کے چہروں کو سیاہ کردیا گیاتھا اور اب ایک مرتبہ پھر سے وفاقی دارلحکومت میں ایسی ہی سرگرمیاں دیکھی کی گئی ہیں

سپر مارکیٹ میں عید کی خریداری میں مصروف لوگوں نے جب اشتہاری بورڈز پر خواتین ماڈلز کے چہروں اور بازوؤں کو سیاہ پایا تو انہیں خوف محسوس ہوا۔

کسی نے نہیں دیکھا کہ یہ حرکت کس نے کی تھی، لیکن انہیں آٹھ برس پہلے وفاقی دارالحکومت میں مذہبی سرگرمیاں یاد آگئی، جب لال مسجد سے متاثرہ ’اصلاحی‘ مہم کے دوران بنیادی طور پر مذہبی مدرسوں کے طالبعلموں نے ایسی حرکت کی تھی۔

تاہم اس وقت کی طرح نہ تو مشتہرین نے اور نہ ہی ان کے کلائنٹس نے اس دانستہ بدتہذیبی کی پولیس میں یا کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو رپورٹنگ کی ضرورت محسوس کی۔

لیکن نجی طور پر دبے لفظوں میں بہت سے لوگوں نے غیرت بریگیڈز کی ممکنہ واپسی پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔

سپر مارکیٹ پر سیاہی پھیرے جانے والے تین اشتہاری بورڈز کے مشتہر سہیل شاہ نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھ سکتا کہ مجھے نقصان پہنچا کر کسی کو کیا ملے گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’گندی ہونے والی اس ریفلیکٹر اسکرین کی تبدیلی پر دس ہزار روپے کی لاگت آئے گی۔ اس طرح کی بدتہذیبی پر انشورنس دستیاب نہیں ہے، اور کلائنٹس کو بھی بلاوجہ ادائیگی کرنی ہوگی جس سے میرے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

ایک سیلون کی مالک ثوبیہ عامر کہتی ہیں کہ ان کے خیرخواہوں نے اس حرکت کا الزام دائیں بازو کے طالبعلموں پر عائد کیا ہے، لیکن وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

شہر کے زیادہ تر کاروباری شخصیات خوف سے اس موضوع پر مزید بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔

ایک گرلز کالج کے قریب اشتہاری بورڈز پر سیاہی پھیرے جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے سپرمارکیٹ میں ایک کپڑے کے تاجر نے کہا کہ شہر کے مرکزی علاقے میں رات کی تاریکی کے دوران یہ بدتہذیبی کرنے والے اپنے پیغام دور دور تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

ایک شاپنگ پلازہ کے مالک اسکندر خان کہتے ہیں کہ مذہبی مدرسے کے طالبعلم اس طرح کی ’’غندہ گردی‘‘ کے ذریعے خواتین کے لیے اپنے اساتذہ کے بتائے ہوئے خواتین کے لیے لباس کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اسلام آباد میں غنڈہ گردی کا کوئی کلچر نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات کے پس پردہ نیم پختہ اور نوجوان طالبان کی جانب سے ہم پر اپنی شریعت کے نفاذ کی ایک کوشش ہوتی ہے"۔

اسکندرخان نے 2007ء میں لال مسجد کی ’’خواتین بریگیڈز‘‘ کے سڑکوں پر مارچ کے واقعات یاد دلائے۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر مزمل صابری نے کہا ’’ہم سب کو چھوٹے اور بڑے مدراس کے طالبعلوں کی جانب سے ہراساں کیا جانا یاد ہے، جب وہ ایف سیون، ایف سکس اور ای سیون میں اس سال ڈنڈوں سے مسلح گشت کرتے تھے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو مشتہرین کے نقصان پر تشویش ہے، لیکن اس طرح کے زیادہ تر واقعات شہر میں کاروباری ماحول میں خوف کو فروغ دیتے ہیں۔

مزمل صابری نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ اس وقت وہ جارحانہ محسوس نہیں ہوئے، اس لیے کہ انہوں نے اشتہاری بورڈز پر رات کی تاریکی میں سیاہی پھیری تھی۔‘‘

شہر میں اس طرح کی آخری حرکت شاید 2012ء کے دوران ایف ٹین کے علاقے میں رپورٹ کی گئی تھی۔

ماضی کے برعکس اس طرح کی بدتہذیبی کا ارتکاب کرنے والے شرپسندوں نے ایسا کوئی پیغام نہیں چھوڑا کہ ’’فحاشی و بے حیائی بند کرو۔‘‘

شہر کے کاروباری طبقے کے افراد محسوس کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ یہ مسئلہ بڑھ جائے حکام کو اس طرح کی حرکتوں کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

سپر مارکیٹ کی ایک کاروباری شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کے ساتھ کہا کہ ’’ہمارے یونین لیڈرز کو یہ معاملہ حکام اور پولیس کے سامنے رکھنا چاہیے۔‘‘

دوسری جانب کوہسار پولیس اسٹیشن کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم اپنے طور پر کوئی کارروائی نہیں کرتے، تاہم اگر متاثرہ لوگ ایف آئی آر درج کرائیں تو کارروائی کی جاسکتی ہے۔‘‘

اگرچہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’اس طرح کے واقعات کے پسِ پردہ مذہبی عناصر ہوتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان عناصر کے خلاف لوگ ایف آئی آر درج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔

جب ڈان نے ایف سیون میں جامعہ فریدیہ، ایف سکس میں جامعہ محمدیہ، ایف سیون میں تعلیم القرآن اور ایف سکس میں دیگر مدرسوں کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ان تمام نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’متعلقہ افراد‘‘ عید کی چھٹیوں پر گئے ہوئے ہیں۔

تاہم ایف سکس میں ایک چھوٹے مدرسے کے ایک اہلکار نے اشتہارات پر سیاہی پھیرنے سے متعلق سوالات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا آپ مسلم خواتین کو اس طرح کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں؟ اس طرح کی برہنگی پر پابندی ہونی چاہیے، اس لیے کہ یہ مغرب کی اسلام کے خلاف سازش ہے۔‘‘