عہدِ حاضر میں جدید اردو غزل کے والی
صابر ظفر عہد حاضر کے ایک اہم غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں دو مختلف جہتیں ہیں۔ روایتی غزل ان کا بنیادی حوالہ ہے اور گیت نگاری میں بھی انہیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ کراچی سے 2013 میں صابر ظفر کی کلیات کا حصہ اول ”مذہبِ عشق“ رنگ ادب پبلیکیشنز نے شائع کیا۔ اس کلیات میں ان کے پہلے 10 مجموعہ ہائے کلام کو یکجا کیا گیا جن کے نام ابتداء، دھواں اور پھول، پاتال، دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے، دکھوں کی چادر، بارہ دری میں شام، اک تری یاد رہ گئی باقی، عشق میں روگ ہزار، بے آہٹ چلی آتی ہے موت، اور چین ایک پل نہیں، ہیں۔ صابر ظفر کی یہ کلیات اپنے اندر بہت سے موضوعات سموئے ہوئے ہیں۔ دُکھ، انتظار، درد، لہو، ہجر، پیاس، صحرا، سمندر، قفس، نیند، عشق کے موسم اور وحشت کے تماشے جیسے موضوعات ان کی شاعری میں پوری طرح منعکس ہیں۔
یہ کلیات 800 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں 497 غزلیں، 77 متفرق اشعار شامل ہیں۔ اس کلیات میں 1974 سے 2000 تک کے عرصے میں کی جانے والی شاعری شامل کی گئی ہے۔ صابر ظفر نے اپنا ایک مجموعہ کلام ”بے آہٹ چلی آتی ہے موت“ اپنے 22 سالہ بیٹے شاہد مظفر کے نام کیا، جسے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا اور پھر اُس کی لاش نہر میں بہا دی گئی۔ کچھ غزلیں اپنے شاعر دوست عبیداللہ علیم کی یاد میں لکھی ہیں۔ ان کی شاعری میں بابا بلھے شاہ کی شاعری سے اکتساب بھی ملتا ہے، جبکہ مرزا غالب، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز کی شاعری کی جھلک بھی موجود ہے۔ اکثر مقامات پر ان شعراء کی شاعری سے ایک تعلق محسوس ہوتا ہے، کہیں جواب غزل بھی ملتی ہے۔