دہشت گردی میں موبائل فونز کے بجائے VoIP کا استعمال
کراچی: سندھ کے محکمہ داخلہ کو جمع کرائی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صفورا گوٹھ میں بس قتل عام میں ملوث ملزمان موبائل فونز کے استعمال کے خطرات سے واقف تھے، چنانچہ انہوں نے وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول (وی او آئی پی) کا استعمال کیا۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس بناء پر حکومت کو اس طرح کے چیلنجز کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے، مستقبل کے دوران جن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ رپورٹ تیس جون کو پولیس کے سربراہ کی جانب سے تیار کی گئی تھی، جسے حال ہی میں مجاز اتھارٹی کو پیش کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’ملزمان نے اپنے دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے کسی موبائل فون سمز کا استعمال نہیں کیا۔ وہ ٹاک رے کا استعمال کرتے تھے، جو مواصلات کے لیے ایک وی او آئی پی سافٹ ویئر ہے۔
حکام چاہتے ہیں کہ حکومت وی او آئی پی ایپس کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت مزید سرمایہ فراہم کرے۔ حکام کے لیے سرمائے کی کمی اور ناقص ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔
یاد رہے کہ 2013ء میں حکومتِ سندھ نے اسکائپ، وہاٹس ایپ، ٹینگو اور وائبر سمیت انٹرنیٹ چیٹ اور موبائل فون ایپس پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی، جسے دوستوں اور حریفوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس وقت حکومت سندھ سے کہا گیا تھا کہ ٹیکنالوجیز پر پابندی لگانے کے بجائے وہ ان وی او آئی پی سے متعلق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی استعداد میں اضافہ کرے۔
یاد رہے کہ 13 مئی کو صفورا گوٹھ کے نزدیک شیعہ اسماعیلی برادری کے اراکین کی بس پر مسلح حملے میں تقریباً 47 افراد ہلاک اور 13 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یہ کیس ایک ہفتے کے اندر اندر حل کرکے اس ’وحشیانہ قتل عام کے سانحے‘ میں ملوث پانچ ’دہشت گردوں‘ کو گرفتار کرلیا تھا۔
رپورٹ میں درج ان دہشت گردوں کے نام سعد عزیز، طاہر حسین منہاس، محمد اظہر عشرت، حافظ ناصر اور اسد الرحمان ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اس جرم میں استعمال ہونے والی دو کلاشنکوف (اے کے-47 رائفلیں) اور سائلنسر کے ساتھ نائن ایم ایم کی آٹھ پستولیں سمیت تمام ہتھیار اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔
پولیس کے تفتیش کاروں نے اس ’دہشت گرد کارروائی‘ میں استعمال ہونے والی گاڑی اور دہشت گردوں کے خون آلود کپڑے بھی اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔
اس کے علاوہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’جہادی‘ لٹریچر پر مشتمل سات لیپ ٹاپ بھی ایک چھاپے کے دوران قبضے میں لیے گئے۔
37 مقدمات میں ملوث:
اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والی پوچھ گچھ کے دوران ان دہشت گردوں نے اعتراف کیا کہ وہ کراچی اور حیدرآباد میں دہشت گردی کے 37 کیسز میں ملوث تھے۔
یہ جے آئی ٹی قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس کےتمام اداروں کے اراکین پر مشتمل ہے۔
دہشت گردی کے ان کیسز میں اپریل کے دوران جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی وائس پرنسپل اور امریکی شہری ڈیبرا لوبو پر حملہ، انسانی حقوق اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے متحرک سبین محمود کا قتل، پاکستان رینجرز کے برگیڈیئر باسط پر حملہ، پولیس اور رینجرز پر کئی حملے، حیدرآباد اور کراچی میں بینک ڈکیتیاں، آرام باغ کے علاقے میں بوہری مسجد پر بم دھماکا، نارتھ ناظم آباد میں بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کی شاخ پر کریکر حملہ، بوہری برادری کے بشیر سیف الدین کا قتل اور کئی دوسرے قتل، اغوا اور عسکریت پسند حملوں کے کیسز شامل ہیں۔
ملزمان کے خلاف دستیاب ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس جرم میں استعمال ہونے والے ہتھیار برآمد کرلیے گئے تھے اور فارنسک ماہرین کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والی باقیات کے ساتھ ان کی مماثلت پائی گئی تھی۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ چار موٹرسائیکلیں اور دو کاریں اس حملے میں استعمال ہوئیں، جنہیں ضبط کرلیا گیا ہے۔
مزید یہ کہ کراچی میں دیگر گیارہ حملوں میں استعمال ہونے والی گولیاں بھی ان ہتھیاروں سے فائر کی گئی تھیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ملزمان کے قبضے سے برآمد ہونے والے لٹریچر کی چھپائی کا انداز اور صفورا گوٹھ حملے کے جائے وقوعہ، ڈاکٹر ڈیبرا لوبو پر حملہ اور نجی اسکولوں پر دو گرینیڈ حملے کے بعد ملنے والے پمفلٹ کی چھپائی کا انداز یکساں تھا۔
موبائل فونز کے بجائے وی او آئی پی کے استعمال کے علاوہ ملزمان نے خفیہ ناموں کا استعمال کیا تاکہ انٹیلی جنس اداروں کے ریڈار کی زد میں آنے کی صورت میں خود کو محفوظ رکھ سکیں۔
پولیس کی رپورٹ کے مطابق ’’تمام دہشت گرد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھا مالی پس منظر رکھتے ہیں، اور سوشل میڈیا نیٹ ورک اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے استعمال میں ماہر ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ پندرہ افراد کے اس گروپ کے صرف پانچ ’جرائم میں متحرک‘ ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔
حکام نے ان کے قبضے سے چھ گرینیڈ، چار موبائل فونز، پچاس سمز، ایک پولیس یونیفارم اور نصف کلو زہر بھی برآمد کیا۔ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ گروپ کا ہر ایک رکن اپنی جیب میں زہر کا ایک پیکٹ رکھتا تھا، تاکہ کسی غیرمطلوب صورتحال خاص طور پر ممکنہ گرفتاری کی صورت میں اس کا استعمال کیا جاسکے۔
ایک عہدے دار نے بتایا کہ ’’خوش قسمتی سے ہم نے انہیں اس زہر کا استعمال کرکے خود کو ہلاک کرنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا۔‘‘