پاکستان

رویت ہلال کمیٹی ختم کرنے کی تجویز

ملک کی تین بڑی جماعتوں مسلم یگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

کراچی: ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

جمعرات کو جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ رویت ہلال کمیٹی کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں اور اسے ختم کر دینا چاہیے۔

اس موقع پر انہوں نے خیبر پختونخوا میں چاند دیکھنے کے عمل کو درست قرار دیتے ہوئے شہادتوں کو اہمیت نہ دینے پر رویت ہلال کمیٹی سے سوال کیا کہ انہیں اسے رد کرنے کا کیا حق ہے؟۔

’میں نے خیبر پختونخوا میں چاند کے معاملے پر گواہی کے عمل کا خود مشاہدہ کیا اور گواہی دینے والا حلفیہ بیان دیتا ہے کہ اس نے چاند دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں قرآن پر ہاتھ رکھ حلفیہ سب کے سامنے گواہی دینے والے شخص کو جھوٹا کہوں تاوقتیکہ اس کی بات کے جھوٹا ہونے کے شواہد موجود ہوں۔

’اگر مقامی سطح پر کسی نے چاند دیکھا ہے اور اس کی گواہی معتبر ہے تو وہ کیوں نہ عید کریں، کیوں وہ اس بات پر عید کریں کہ کراچی میں چند لوگ بیٹھ کر چاند دیکھ رہے ہیں اور جب وہ چاند دیکھیں گے تو میں ان کے ساتھ عید کروں‘۔

انہوں نے مرکزی رویے ہلال کمیٹی کے ارکان سے سوال کیا کہ وہ کس بنیاد پر کسی شخص کے قرآن پر حلفیہ دیے گئے بیان کو رد کر سکتے ہیں اور انہیں کس نے یہ حق دیا ہے؟۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ یہ مذہب کے نام پر تفرقہ پیدا کر رہے ہیں اور اس کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی نے بھی فرحت اللہ بابر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے آنے والی گواہوں اور شہادتوں کو یکسر رد کرنا بالکل غلط ہے۔

’فاٹا اور خیبر پختونخوا میں لوگوں نے باقاعدہ نشانیاں رکھی ہوئی ہیں اور وہ 27 رمضان المبارک سے ڈیوٹیاں دے کر چاند دیکھنے کی ذمے داری انتہائی شوق اور احترام سے انجام دیتے ہیں‘۔

شہریار نے کہا کہ تمام مکاتب فکر اور علما کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تمام علما خصوصاً مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ارکان کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ خیبر پختونخوا کے لوگ بھی مسلمان ہے اور ان لوگوں کی گواہیوں کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔

رویتِ ہلال کے تنازع کا حل کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کردینا چاہیے کیونکہ یہ پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ عید کے دن روزہ رکھنے پر شریعت کے کتنے سخت احکامات ہیں۔

اس موقع پر وفاقی وزیر مملکت لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر خیبرپختونخوا سے چاند دیکھنے شہادت موصول ہو جاتی ہے تو اس پر یقین کرنا چاہیے، اسلام میں 30 اور 29 روزوں دونوں کی گنجائش موجود ہے۔

عبدالقادر بلوچ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ کل اس معاملے پر خیبر پختونخوا کے عوام یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوں کہ ہمیں پاکستان میں برابری کے حقوق نہیں ملتے‘۔

یاد رہے کہ ماضی میں رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند کے معاملے پر تقریباً ہر سال تنازعات سامنے آتے رہے ہیں جہاں پشاور کی مسجد قاسم علی خان مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی جانب سے ہر سال مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات کے برعکس ایک دن قبل ہی چاند دیکھنے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی مفتی پوپلزئی کی جانب سے عید الفطر جمعہ کو منانے کا اعلان کیا گیا جبکہ ملک بھر میں عیدالفطر کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو اسلام آباد میں ہو گا جبکہ ملک بھر کی زونل کمیٹیاں بھی شاند دیکھنے کیلئے صوبائی دارالحکومتوں میں سر جوڑ کربیٹھیں گی۔

مفتی پوپلزئی خیبر پختونخوا سے موصول ہونے والی گواہیوں کو رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے رد کیے جانے کو خیبرپختونخوا سے زیادتی کے مترادف قرار دیتے رہے ہیں۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے جدید سائنسی حسابات سے اتفاق رکھتے ہیں جبکہ مسجد قاسم علی خان کے فیصلے اکثریتی طور پر سائنسی اعتبار سے ناممکن ہوتے ہیں۔ سائنس کی مدد لیے بغیر چاند نظر آنے یا نہ آنے کا بالکل درست فیصلہ کرنا چونکہ مشکل ہے، اس لیے مسجد قاسم علی خان کے فیصلے اگر غلط نہ بھی ہوں، تب بھی مشتبہ ہوتے ہیں۔

2011 میں مسجد کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ چاند نظر آگیا ہے، اور رمضان المبارک اگست کی پہلی تاریخ سے شروع ہوگا جبکہ اس دن پشاور اور گرد و نواح کے علاقوں میں چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔