الطاف حسین پر مقدمات کی تعداد 100 سے تجاوز
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقریر پر درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔
الطاف حسین کی فوج مخالف تقریر پر کراچی میں 18 مقدمات درج ہوئے جن میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور شہریوں کی جانب سے گڈاپ سٹی تھانہ، سچل تھانہ، بن قاسم تھانہ،اسٹیل ٹاؤن تھانہ ، ملیر کینٹ تھانہ، قائد آباد تھانہ، سکھن تھانہ ، قائد آباد تھانہ، سائٹ تھانہ، سپرہائی وے تھانہ، سہراب گوٹھ سمیت دیگر تھانوں میں مقدمات درج کروائے گئے۔
یہ بھی پڑھیں : الطاف حسین کے خلاف مقدمات درج ہونا شروع
بن قاسم تھانہ میں درج کروائی گئی ایف آئی آر میں الطاف حسین کے ساتھ وسیم اختر، ریحان ہاشمی اور قمر منصور کو بھی نامزد کیا گیا۔
سچل تھانہ میں درج کروائے گئے مقدمے میں ایم کیو ایم کے قائد کے ساتھ 20 دیگر رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا۔
متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف بلوچستان اور پنجاب کے کئی شہروں میں بھی مقدمات درج کروائے گئے۔
سندھ کے شہروں سکھر، کندھ کوٹ اور میرپور ماتھیلو میں بھی الطاف حسین کے خلاف ایف آئی آرز درج کروائی گئیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے تھانہ ڈیفنس اے، تھانہ پرانی انارکلی اور تھانہ ستوکتلہ میں الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
سیالکوٹ کے تھانہ سول لائن اور تھانہ ڈسکہ میں دفعہ 122، 123 اور 7 اے ٹی اے کے تحت ایک شہری نے الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے۔
ساہیوال کے تھانہ فرید ٹاؤن اور تھانہ چیچہ وطنی سٹی، اوکاڑہ کے تھانہ رینالہ خورد سٹی، تھانہ دیبالپور، جہلم کے تھانہ سول لائن، گجر انوالہ کے تھانہ علی پور چٹھہ، بھکر اور ملتان میں ایک ایک مقدمہ درج کروایا گیا۔
خیبر پختونخوا میں کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو اور کرک میں ایک ایک مقدمہ درج ہوا۔
گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں بھی مقدمات درج کئے گئے۔
الطاف حسین کے خلاف مقدمات دفعہ 7-6 اے ٹی اے ، 25ٹیلی گراف ایکٹ 120بی، 121اے، 124اے، 153اے، 109، 780 اور 6اے کے تحت درج کئے گئے۔
مقدمات کے متن میں تحریر ہے کہ الطاف حسین نے خطاب کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اشتعال انگیز جملے ادا کیے اور شہریوں کو شرانگیزی پر اکسانے کی بھی کوشش کی۔
گڈاپ سٹی تھانے میں درج مقدمے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے ساتھ رؤف صدیقی، ڈا کٹر فاروق ستار ، خوش بخش شجاعت ،وسیم اختر ، قمر منصور ، رشید گوڈیل ،سیف یار خان ، خالد مقبول صدیقی ، ریحان ہاشمی ، حیدر عباس رضوی وسیم اختر ، سلمان مجاہد بلوچ، طیب ہاشمی ، اسلم ممتاز ، کشور زہرہ ، کیف الوری ، عارف ایدڈوکیٹ ، امین الحق، وسیم قریشی ، کامران حسین ، نورجہان ، زاہدہ بیگم ، کاظم رضا سمیت دیگر پارٹی رہنما اور کارکنان بھی شامل ہیں۔
نامزد افراد پر خطاب سن کر تائید کرنے کا الزام ہے، ان پر پاکستان پینل کورڈ (پی پی سی) کے تحت 121، 122، 123، 123 اے 109 اور 6/7 اے ٹی اے کی دفعات لگائی گئیں۔
اس حوالے سے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کہتے ہیں کہ حکومت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں پر جھوٹے مقدمات بنا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے متحدہ کے رہنماوٴں اور منتخب نمائندوں پر جھوٹے مقدمات بنانے شروع کر دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے بیشتر سیکٹر اور یونٹ انچاجز سمیت دیگر ذمہ داروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب رابطہ کمیٹی نے ان مقدمات کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں سے مقدمات کے خلاف آواز اُٹھانے کی اپیل کی ہے۔
رابطہ کمیٹی نے مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیا۔
علاہ ازیں قانون دانوں کا کہنا ہے جرم ریاست کے خلاف ہوا ہے مقدمہ بھی ریاست کو کرنا چاہیے۔
قانونی ماہرین نے مقدمات کے اندراج کو مذاق قرار دیا۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں ایف آئی آر کٹوانے سے کچھ نہیں ہوگا، جرم ریاست کےخلاف ہوا ہے مقدمہ بھی ریاست کو کرنا چاہیئے۔