نقطہ نظر

پاکستان ہاکی : عروج اور زوال

ہاکی کا زوال اتنا بھی ڈرامائی یا اچانک نہیں تھا ، یہ ایک سست اور دردناک تنزلی ہے جس کا آغاز 1986 کے ورلڈکپ سے ہوا۔

کیا کوئی جدید دور کے فٹبال ورلڈ کپ کا تصور کرسکتا ہے کہ جس میں برازیل، ارجنٹینا یا جرمنی شریک نہ ہوں؟ ایسا لگ بھگ ناقابل تصور ہے بلکہ درحقیقت واہیات خیال ہے۔

یہی وہ چیز ہے جو کبھی ہاکی ورلڈکپ پاکستان کے بغیر منعقد ہونے کے بارے میں سوچی جاتی تھی اور گزشتہ برس بالکل ایسا ہی ہوا۔ مزید برآں رواں برس پاکستانی ہاکی ٹیم اگلے گرمائی اولمپکس میں کوالیفائی کرنے میں ہی ناکام ہوگئی۔

پاکستان ہاکی کا زوال اتنا بھی ڈرامائی یا اچانک نہیں تھا جیسا نظر آتا ہے۔ یہ ایک سست اور دردناک تنزلی ہے جس کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان نہ صرف 1986 میں انگلینڈ میں کھیلے جانے والے ورلڈکپ کا ٹائٹل ہارا بلکہ 12 ملکی ایونٹ میں 11 ویں نمبر پر آیا۔

اس وقت تو ہاکی ٹیم نو کی دہائی میں کسی حد تک ابھر کر واپس آنے میں کامیاب رہی مگر یہ کھیل اسکولوں اور کالجوں سے غائب ہونا شروع ہوگیا تھا جبکہ اسے میڈیا اور کارپوریٹ کی ویسی توجہ بھی حاصل نہیں رہی جو کرکٹ کو ملنا شروع ہوگئی۔

تو اگر اسکولوں کے چند طالبعلم ہی ہاکی کھیلیں گے تو کوئی کیسے توقع کرسکتا ہے کہ نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آئے گا؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔

کھیل کے طریقوں میں آنے والی تبدیلیوں کو فوری طور پر اپنایا نہیں جاسکا یا ایسی مراعات فراہم نہیں کی گئی جو اس کھیل کو بطور پیشہ اپنانے کے لیے نوجوانوں میں دلچسپی کا باعث بنتا اور نہ ہاکی صرف کم توجہ پانے والا مشغلہ یا قومی فریضہ بن کر رہ جاتی۔

پاکستان ہاکی کا بتدریج زوال اب مکمل نظر آتا ہے۔ یہ کھیل آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہوگیا مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سرکاری طور پر اب بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔

رواں برس کے اوائل میں مقبول فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس کھیل کی دوبارہ بحالی کا عزم ظاہر کیا اور رواں ماہ پاکستان گرمائی اولمپکس میں کوالیفائی کرنے میں ناکام رہا جس کے بعد وزیراعظم نے ٹیم کے تازہ ترین ناکامی پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

تحقیقات محض یہ دریافت کرنے تک ہی محدود ہیں جو اکثر ہاکی کے پرستار پہلے سے یعنی 90 کی دہائی کے اوائل سے ہی بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کے قومی کھیل کو وہ توجہ، وسائل اور احترام نہیں دیا جارہا جو اس کا حق ہے۔

اور اس کے پیچھے چھپی سازشی وجوہات میں سے ایک یہ ہوسکتی ہے کہ ہاکی کی جگہ کرکٹ ایسا کھیل بن گیا ہے جس میں کامیابی کو ایک حکمران اپنی حکومت کی کامیابی کو اجاگر کرنے کے طور پر پیش کرسکتا ہے۔

یہ ایک اہم قابل غور معاملہ ہے کیونکہ پاکستان ہاکی کے عروج میں بھی اس کی جڑیں موجود ہیں کہ کس طرح اس کھیل کو ماضی کی متعدد حکومتوں نے بلند درجہ دیا اور اس سے ان کا مقصد حکومتوں کو مضبوط بنانا اور کامیابی کے راستے ڈھونڈنا تھا۔

مگر یہ مشق ہمیشہ کامیاب ثابت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک انتہائی ناتجربہ کار اور وسائل سے محروم پاکستان ہاکی ٹیم نے 1956 کے میلبورن اولمپکس کے فائنل میں جگہ بنائی اور اسے وطن میں نئی قوم کی جنگجوانہ فطرت اور نو برس پہلے دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے نئے ملک کے مشکلات کے جدوجہد کے عکس کے طور پر پیش کیا گیا۔

مقبول نظریے کے برخلاف ہاکی ہمیشہ سے ملک کا قومی کھیل نہیں تھی۔ درحقیقت 1950 کی دہائی کے آخر تک کسی بھی کھیل کو قومی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے اپنے پہلے ٹیسٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کی زیرقیادت متاثر کن نتائج پیش کیے تو کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ کرکٹ کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دیا جائے۔

مگر پھر تین ایسے مواقع سامنے آئے جس سے نہ صرف ہاکی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا بلکہ آخرکار ریاست نے اسے پاکستان کا قومی کھیل قرار دے دیا۔

عبدالحفیظ کاردار کی 1958 میں ریٹائرمنٹ کے بعد قومی کرکٹ ٹیم تنزلی کا شکار ہوئی (ساٹھ کی دہائی تک)۔ اس امر نے ہاکی کو کرکٹ کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کا موقع فراہم کیا۔

اس کے علاوہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی فوجی حکومت کی آمد سے بھی اس کھیل کو مدد ملی کیونکہ اس وقت کھیل جیسے ہاکی اور فٹبال کی کرکٹ کے مقابلے میں پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ درحقیقت ایوب خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں کرکٹ پسند ہی نہیں تھی۔

آخر میں سب سے نتیجہ خیز امر یہ رہا کہ پاکستانی ٹیم نے طوفانی انداز میں 1960 کے روم اولمپکس کے فائنل میں جگہ بنائی اور ہندوستان کو شکست دے کر پہلا اولمپک ہاکی ٹائٹل اپنے نام کیا۔

ایوب کی اقتدار پر گرفت مضبوط تھی اور پاکستان کا بڑا حصہ اس حکومت کے دوران ماحول کو اچھا محسوس کررہا تھا۔ ایوب نے اس فتح کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پاکستان معاشرے اور نظام حکومت کی پیشرفت اور ترقی کی علامت کے طور پر پیش کیا (ان کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں)۔

ہاکی میں پاکستان کی شہرت آسمان کو چھونے لگی اور مغربی ہاکی مبصرین نے نوٹس کیا کہ کس طرح پاکستانی (اور ہندوستانی) کھلاڑیوں نے (پچاس کی دہائی کے آخر سے) ایک مہارت سے بھرپور اسکل متعارف کرائی ہے جسے بہت جلد ' ڈربلنگ' کے نام سے جانا جانے لگا۔

یہ وہ اسکل تھی جس کے دوران روم میں متعدد ہاکی ٹیموں کو چکمہ دیا گیا جبکہ اس کا بھرپور مظاہرہ پاک ہندوستان فائنل کے دوران دیکھنے میں آیا۔

ٹوکیو میں ہونے والے 1964 کے اولمپکس میں پاکستان اور ہندوستان نے مسلسل تیسری بار اولمپک ہاکی کے فائنل میں جگہ بنائی مگر اس بار پاکستان کو سخت مقابلے کے بعد 1-0 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان اور ہندوستان دنیا کی ممتاز ترین ہاکی ٹیمیں بن گئیں جو سب سے زیادہ باصلاحیت کھلاڑیوں کو متعارف کرانے لگیں۔ دونوں ممالک میں ہاکی پرجوش حب الوطنی کے اظہار کا ذریعہ بھی بن گئی جس میں توقع کی جاتی تھی کہ ہاکی پلیئرز سرد پیشے کی بجائے قومی فریضے کے طور پر ترجیح دیتے ہوئے کھیلیں گے۔

1968 کے میکسیکو سٹی اولمپکس کے دوران پاکستانی ٹیم گیند کو یہاں سے وہاں دوڑاتے ہوئے مسلسل چوتھی بار ہاکی کے فائنل میں پہنچی اور وہاں آسٹریلیا کو 2-1 سے شکست دے کر دوسرا اولمپک ہاکی ٹائٹل اپنے نام کیا۔ پاکستان دنیا کی نمبرون ہاکی ٹیم بن گیا جو اپنے اسٹائل اور صلاحیت کی بناءپر بہت زیادہ کشش رکھتا تھا۔

ہاکی کا کھیل ' لبرل' ایوب آمریت میں پھلتا پھولتا رہا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ٹیم نے میکسیکو سٹی میں دورا اولمپک ٹائٹل جیتا تو فوجی حکومت بائیں بازو کے طالبعلموں اور ورکرز تحریک کے نتیجے میں دیوار کے کونے میں لگ چکی تھی۔

اس تحریک نے ایوب خان کو 1969 کے شروع میں مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور انہوں نے اقتدار ایک اور فوجی شخص جنرل یحییٰ خان کو دے دیا جنھوں نے ملک کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا۔

مگر پاکستان ہاکی کا مارچ اس بحران سے متاثر ہوئے بغیر آگے بڑھتا رہا یا کچھ اثر بھی پڑا؟

1970 میں پاکستان ہاکی کے سربراہ نور خان نے ہاکی ورلڈکپ کو متعارف کرانے کا خیال پیش کیا۔ اس کھیل کے عالمی ادارے نے فوری رضامندی ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کو پہلے ہاکی ورلڈ کپ (1971 میں) کی میزبانی کی پیشکش کردی۔

مگر 1971 کے وسط میں ملک کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان) میں سیاسی صورتحال میں تیزی سے بگاڑ آیا۔ 1970 کے انتخابات کے دوران بنگالی قوم پرسٹ جماعت عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں انتخابات میں سوئپ کیا جبکہ دو بائیں بازو کی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور بلوچ پختون قوم پرسٹ جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے مغربی پاکستان میں اکثریتی نشستیں جیت لیں۔

عوامی لیگ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت بن گئی مگر عوامی لیگ، پی پی پی اور یحییٰ حکومت کے درمیان اقتدار کے لیے تین طرفہ جدوجہد کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں عسکریت پسند بنگالی قوم پرستوں اور پاکستانی فوج کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

اس خونریزی نے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو ورلڈکپ ایونٹ اسپین منتقل کرنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان فائنل میں پہنچنے میں کامیاب رہا (ہندوستان کو سیمی فائنل میں شکست دینے کے بعد) اور پھر آسان حریف اسپین کو 1-0 سے شکست دے کر پہلا ہاکی ورلڈکپ جیت لیا۔

تین ماہ بعد (دسمبر 1971) میں پاکستان دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں آزاد جمہوریہ بن گیا۔ یحییٰ کو مشتعل افسران کے ایک گروپ اور پی پی پی کے ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا اور پی پی پی رہنماءکو نئی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی گئی۔

بھٹو مسلسل عالمی برادری (ماسوائے چین) پر مشرقی پاکستان کے تنازعے میں پاکستان کی پوزیشن کو نقصان پہنچانے اور بنگالی قوم پرستوں اور اس کے مرکزی حامی ہندوستان کا ساتھ دینے کا الزام عائد کرتے رہے۔

ان حالات میں پاکستانی ہاکی ٹیم 1972 کے میونخ اولمپکس میں شرکت کے لیے پہنچی۔ اس نے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کی اور بڑے مقابلے میں اس کا مقابلہ پھر اٹھ کھڑی ہونے والی ہندوستانی ٹیم سے ہوا۔ محاصرے کی ذہنیت نے ملک کو گرفت میں لے لیا اور اس نے ہاکی اسکواڈ تک بھی رسائی حاصل کرلی۔

میچ سے ایک شام پہلے پاکستان اسکواڈ نے مقبول ملی نغمے جو پاکستانی گلوکارہ نور جہاں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں دوران گائے تھے، گانا شروع کیے۔

ان گانوں کو گانے کا مقصد نہ صرف پاکستانی کھلاڑیوں کو (روایتی حریف ہندوستان) کے خلاف جذبے سے بھرنا تھا بلکہ اسی عمارت میں مقیم ہندوستانی کھلاڑیوں کے اعصاب پر بھی اثرانداز ہونا تھا۔

سخت مقابلے کے بعد پاکستان نے ہندوستان کے خلاف 2-0 سے سبقت حاصل کرلی اور لاکھوں پاکستانیوں جو اپنے ریڈیو سیٹس پر کمنٹری سن رہے تھے، اٹھے اور گلیوں میں نکل آئے اور حب الوطنی کے نعرے لگانے لگے۔ بھٹو نے فوری طور پر ایک پرجوش مبارکبادی پیغام ٹیم کو بھجوایا۔

ہندوستان کو شکست دینے کے بعد پاکستان مسلسل پانچویں اولمپک ہاکی فائنل کا حصہ بنا۔ اس بار مدمقابل جرمن تھے جو کہ پاکستان سے بالکل مختلف تھے اور صلاحیت کے مقابلے میں پاور پر زیادہ انحصار کرتے تھے۔

یہ فائنل اب تک سب سے متنازع میچ سمجھا جاتا ہے جسے عالمی ہاکی کے میدان میں دیکھا گیا۔ اس کے آغاز سے ہی دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا رویہ سخت تھا اور ریفریوں کی جانب سے مسلسل وارننگز اور کارڈز جاری کیے جاتے رہے۔

جب دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے حملوں کو ناکام بنادیا تو جرمن کھلاڑیوں نے آخر کار اس ہنگامہ خیز میچ کے 60 ویں منٹ پر گول اسکور کر ہی دیا۔

پاکستانیوں نے اس پر فاﺅل کا شور مچایا اور بیلجیئن ریفری پر چیٹنگ کا الزام عائد کیا اور فائنل وسل کے بعد متعدد پاکستانی پرستار میدان میں دوڑے چلے آئے اور پانی کی بالٹیاں ریفری پر انڈیل دیں۔

اس کے بعد ایوارڈز کی تقریب میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے سلور میڈلز کو توڈ ڈالا اور کچھ نے تو انہیں اپنی ہاکی اسٹکس اور جوتوں پر گھمانا بھی شروع کردیا۔ اس تماشے کو جرمن ٹی وی نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا اور دنیا بھر میں نشر کردیا (بشمول پاکستان)۔

ویڈیو

پاکستان اور جرمنی کے درمیان 1972 میونخ اولمپکس کے فائنل کی ہائی لائٹس

اگرچہ ٹیم کو وطن میں موجود پرستاروں کی ہمدردیاں حاصل تھیں مگر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے گیارہ پاکستانی کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی عائد کردی۔ پاکستانی حکومت نے اپیل کی اور بتدریج یہ پابندی کم کرکے تین سال تک کردی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ ایک ناتجربہ کار پاکستانی ٹیم نے نیدرلینڈ کے شہر ایمسٹیلوین کا سفر کیا تاکہ اپنے ورلڈکپ ٹائٹل کا دفاع کرسکے۔ وہ اپنے پول میں تو سرفہرست رہی مگر سیمی فائنل میں ہندوستان کے ہاتھوں 1-0 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

دو سال (1975) بعد ملائیشیاء میں پاکستان اور ہندوستان کا آمنا سامنا پہلی بار ہاکی ورلڈکپ فائنل میں ہوا ہے۔ یہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کا مجموعی طور پر دوسرا ورلڈکپ فائنل تھا۔ اس میچ کو پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی) پر براہ راست نشر کیا گیا اور لاکھوں افراد نے پاکستان کو ایک بار پھر ہندوستان کے ہاتھوں 2-1 سے ہارتے دیکھا۔

اخبارات کی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ متعدد پاکستانیوں نے اپنے ٹیلیویژن توڑ ڈالے اور پاکستانی کھلاڑیوں پر ' نشے میں دھت' اور ' بے حس' ہونے کا الزام عائد کیا۔

بھٹو حکومت نے معاملے میں مداخلت کی اور کشیدہ ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فائنل میں رسائی پر ٹیم کو مبارکباد دی، حالانکہ دوسری جانب اس نے پاکستان ہاکی بورڈ کو ہدایت کی کہ ٹیم میں نئے خون کو شامل کیا جائے۔

مانیٹریال اولمپکس 1976 میں پہلی بار (1956 کے بعد) پاکستان اولمپک ہاکی فائنل میں پہنچنے میں ناکام رہا، اگرچہ اپنے پول میں وہ ٹاپ پر رہا مگر سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں 2-1 سے شکست کا سامنا ہوا۔

پاکستان تین سال سے زائد عرصے تک کوئی اہم ہاکی ایونٹ جیتنے میں ناکام رہا (اگرچہ اس نے 1974 کا ایشین گیمز ہاکی فائنل ضرور جیت لیا)، مگر جو ٹیم ابھرنا شروع ہوئی وہ پہلے سے بھی زیادہ ڈیشنگ تھی۔ جس میں روایتی صلاحیتوں کے ساتھ رفتار پر بھی زیادہ زور دیا جانے لگا۔

جب یہ ٹیم 1978 میں کھیلے جانے والے ورلڈکپ میں شرکت کے لیے ارجنٹینا پہنچی تو اس کی صفوں میں ہاکی فیلڈ کے دو سب سے تیز رفتار کھلاڑی شامل تھے : اصلاح الدین اور سمیع اللہ۔

چنانچہ پاکستان ہاکی کا سب سے غیرمعمولی عہد شروع ہوا۔ اس نے 1978 میں اپنا دوسرا ورلڈکپ ٹائٹل جیتا (فائنل میں نیدرلینڈ کو شکست دے کر) اور لاہور میں چیمپئنز ٹرافی متعارف کرائی جس میں دنیا کی ٹاپ 8 ہاکی ٹیموں کا مقابلہ ہوا اور اسے بھی جیتا (فائنل میں آسٹریلیا کو ہرایا)۔

بھٹو حکومت کا تختہ جولائی 1977 میں فوجی بغاوت کے ذریعے الٹ دیا گیا۔ نئے حکمران جنرل ضیاءالحق کو پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کی 1978 میں ہندوستان کے خلاف فتح کی خوشخبری ملی اور پھر اسی سال ہاکی ٹیم نے دو عالمی اعزازات جیت لیے۔

ویڈیو

1978 ورلڈکپ فائنل کے ہائی لائٹس

پاکستان دنیائے ہاکی کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھرا۔ پاکستان میں ہاکی کھلاڑیوں کی تصاویر، پوسٹرز اور انٹرویوز نے کرکٹرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

اگرچہ یہ عروج کا دور تھا مگر ٹیم نے 1980 کے ماسکو اولمپکس میں شرکت نہ کی جس کی وجہ مختلف ممالک کی جانب سے افغانستان پر سوویت یونین کے حملے پر احتجاجاً بائیکاٹ کرنا تھا مگر پاکستان نے اسی برس کراچی میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی ضرور جیت لی۔

یہ پاکستان کی آسٹروٹرف پر پہلی بڑی فتح بھی تھی جس کا استعمال مانٹریال اولمپکس میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے بہت زیادہ ہونے لگا تھا۔

مگر یہ حقیقت کہ پاکستانی ٹیم 1978 سے ہاکی کی عالمی نمبرایک سائیڈ تھی، اس کے باوجود کھلاڑیوں کو ملکی کرکٹرز کو حاصل ہونے والی آمدنی کے نصف کے برابر بھی نہیں مل رہا تھا۔

پاکستانی کرکٹرز نے اپنی فیسوں میں مشتاق محمد کی کپتانی (1976-79) کے دوران مناسب اضافہ کرالیا تھا۔ ہاکی کے کھلاڑیوں کو متعدد حکومتی محکموں و اداروں میں ملازمتوں کی شکل میں انعام تو ملا مگر ان کے کھیلنے کی فیس بدستور انتہائی کم رہی۔ کھلاڑیوں سے تاحال توقع کی جاتی تھی کہ وہ پاکستان کے لیے بے غرض قومی خدمت کے لیے کھیلیں گے کیونکہ اس دور میں ہاکی پاکستان کا سب سے قابل شناخت پہلو اور دنیا کے سامنے چہرہ بن چکی تھی۔

ٹیم نے بھی مایوس نہیں کیا اور 1982 میں لگاتار دوسری دفعہ (مجموعی طور پر تیسری بار) ہاکی ورلڈ کپ ٹائٹل اپنے نام کیا۔ ہندوستانی شہر ممبئی میں کھیلے جانے والے فائنل میں بھرے ہوئے اسٹیڈیم اور کروڑوں ٹی وی ناظرین کے سامنے گرین شرٹس نے جرمنی کو 3-1 سے آﺅٹ کلاس کردیا۔

ضیاء جن کی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا، نے اس فتح کو بطور ملک پاکستانی شجاعت کے عکاس کے طور پر پیش کیا (ان کے حکومت کے دور میں) اور ٹیم کی پاکستان واپسی پر سرکاری میڈیا پر زبردست کوریج کی گئی۔

اگرچہ ٹیم نے ماسکو اولمپکس کا بائیکاٹ کیا مگر اس نے اولمپک میں فتوحات کا اعادہ ساتویں بار اولمپک فائنل میں پہنچ کر کیا، اس بار یہ میدان 1984 میں لاس اینجلس میں سجا۔ پاکستان نے اپنا تیسرا اولمپک ہاکی ٹائٹل مغربی جرمنی کو 2-1 سے شکست دے کر جیتا۔

پاکستان ہاکی اس وقت آسمانوں پر پرواز کررہی تھی جس نے دو ورلڈ کپ، دو چیمپئنز ٹرافی ٹائٹلز اور ایک اولمپک گولڈ میڈل محض چھ سال (1978-84) میں جیت لیے۔

اگرچہ کرکٹ اور اسکواش بھی شہرت اور کامیابی سے لطف اندوز ہورہے تھے مگر اس وقت بھی ہاکی ملک کا سب سے مقبول اور نتیجہ خیز کھیل تھا۔

مگر مشکلات بھی بڑھ رہی تھیں۔

کرکٹ (اپنے بہتر مالیاتی فوائد اور گلیمر کے باعث) آہستہ آہستہ اسکولوں اور کالجوں میں ہاکی کی جگہ لے رہی تھی اور ہاکی کے بیشتر میچز آسٹروٹرف پر کھیلے جانے لگے تھے مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان میں محض دو اسٹیڈیمز میں ہی آسٹروف ٹرف کی سہولت موجود تھی حالانکہ وہ اس وقت دنیا کی نمبرون ٹیم تھی۔

ملک میں ہاکی کلب موجود تھے اور کھلاڑیوں کو گھاس پر تربیت دے رہے تھے، جس کی وجہ سے ان کھلاڑیوں کو اعلیٰ سطح کے مقامی ٹورنامنٹس پر مشکلات کا سامنا تھا جو آسٹروٹرف پر کھیلے جاتے۔

یہ مسئلہ اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب ہاکی لیجنڈ حسن سردار نے انگلینڈ میں منعقد ہونے والے 1986 کے ورلڈکپ میں نوجوان پاکستان ہاکی اسکواڈ کی قیادت کی۔ پاکستان لگ بھگ ہر میچ میں ناکام رہا۔

قوم شاک کی حالت میں آگئی۔ حکومت نے فوری تحقیقات کا حکم دیا اور میڈیا ٹاپ کھلاڑیوں کا یہ ماتم سنانے لگا کہ انہیں مونگ پھلی (کرکٹروں کے موازنے میں) ہی دی جاتی ہے اور ہاکی فیڈریشن اور حکومت سے تنخواہوں میں معمولی اضافے کی درخواستیں کی جانے لگیں۔

شاہد علی خان جو اس وقت ملک کے بہترین گول کیپر تھے، نے میڈیا کو بتایا کہ کھلاڑیوں کو فی میچ صرف 27 روپے معاوضہ ملتا ہے اور جب بھی اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکومت کی جانب سے ایسا محسوس کرایا جاتا ہے جیسے وہ غدار ہوں۔

ضیاء1988 میں چل بسے اور نئے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ پاکستان ہاکی بحالی کے عمل سے گزرنے لگی جبکہ کرکٹ اور اسکواش نے مقبولیت کے لحاظ سے سبقت حاصل کرلی۔

نواز شریف کی پہلی اور بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں نے ہاکی میں سرمایہ کاری کے لیے کارپوریٹ اسپانسرز کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کھلاڑیوں کی فیس میں معمولی اضافہ بھی کیا اور ملک میں مزید آسٹروٹرف بچھانے کے احکامات دیئے۔

ان اقدامات نے پاکستان ہاکی کو کچھ عرصے کے لیے دوبارہ بحال کرنے میں مدد ملی، اس کا آغاز 1990 کے ساتویں ہاکی ورلڈکپ میں ہوا جو لاہور میں منعقد ہوا، پاکستان نے فائنل میں جگہ بنائی جہاں لوگوں سے بھرے اسٹیڈیم میں اسے ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوا۔

پھر 1991 میں قومی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی (جرمنی) میں بھی فائنل میں رسائی حاصل کی مگر وہاں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اب شکستوں کے باوجود پاکستان ایک بار پھر عالمی رینکنگ میں اوپر آنے لگا اور آخرکار 1994 میں وہ چوتھے ورلڈ کپ ٹائٹل (سڈنی، آسٹریلیا) کو پانے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان ہاکی ایک بار پھر ٹریک پر آگئی۔

مگر ورلڈ چیمپئنز بن جانے کے باوجود (ریکارڈ چوتھی بار) کھلاڑیوں کی فیس بدستور کم رہی اور کارپوریٹ دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس حوالے سے تمام تر توجہ کرکٹ کی جانب منتقل ہوچکی تھی۔

ایک دہائی بعد ہاکی اسکولوں سے غائب ہونا شروع ہوگئی اور ملکی ہاکی بورڈ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا، حالات اتنے بدتر ہوگئے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران تو بورڈ کی جانب سے اکثر پرائیویٹ پارٹیوں سے ٹیم کے غیرملکی دوروں کے فنڈ کے لیے درخواستیں کی گئی ہیں۔

1994 کی کامیابی اور کچھ ایشیائی ٹائٹلز سے ہٹ کر پاکستان ہاکی ٹیم کوئی بھی اہم ہاکی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکی۔

ہاکی قومی کھیل کی حیثیت سے ایسے کھیل کی شکل اختیار کرگیا جس کے بارے میں موجودہ عہد کے کرکٹ کی دیوانی نسل کو بہت کم معلومات یا دلچسپی ہے۔ درحقیقت آج کے بیشتر پاکستانی نوجوانوں کو موجودہ پاکستانی ہاکی کھلاڑیوں کے مقابلے میں یورپی کلبوں کے فٹبال کھلاڑیوں کے ناموں سے زیادہ واقفیت حاصل ہے۔

وہ کھیل جو کبھی بہت زیادہ فخر اور جوش کا باعث تھا اور جو ایک جدوجہد کے شکار ملک کے لیے عزت کے اظہار کا باعث بن گیا تھا، کو بدقسمتی سے مرجانے کی اجازت دے دی گئی۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔