پکوان کہانی: سموسہ
آخر سموسے کی لذت کو کوئی الفاظ میں کیسے بیان کرسکتا ہے؟
لڑکپن کے دور میں میرا پسندیدہ سموسہ مسٹر ویلوز کی اسکول ٹک شاپ سے ملتا تھا۔ جو کوئی بھی کراچی کے مشنری اسکولوں میں گیا ہو، اس نے وہاں کی کینٹینوں میں آلو کے سموسوں کا تاریخی ذائقہ ضرور چکھا ہوگا۔
یہ گولڈن براﺅن، کرکرا، پرتوں سے بھرپور ذائقے دار سموسہ صرف 40 پیسے کا تھا اور اگر اسکول کا سموسہ کافی نہیں پڑتا تھا تو ہمارا چوکیدار گھر میں بہترین سموسے تیار کرتا تھا، لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ میں سموسوں پر ہی بڑی ہوئی ہوں۔
مگر کیا سموسہ واقعی برصغیر سے تعلق رکھتا ہے؟
نہیں ایسا بالکل نہیں، بلکہ یہ وسطی ایشیاء سے ہجرت کر کے یہاں پہنچا ہے۔ جی ہاں واقعی یہ ایک اور غیر ملکی پکوان ہے جس نے دیسی پلیٹوں میں اپنی جگہ بہت خوبی سے بنا لی ہے۔ یہ تارکِ وطن پکوان طویل فاصلے طے کرتا ہوا وسطی ایشیاء سے برصغیر تاریخی تجارتی راستوں کے ذریعے پہنچا۔
پکوانوں کی تاریخ پر ایک کتاب The Oxford Companion To Food کے مصنف ایلن ڈیوڈسن کہتے ہیں "برصغیر کا سموسہ بھری ہوئی پیسٹری یا ڈمپلنگز کے خاندان میں سب سے زیادہ مشہور ہے، اور مصر اور زنزیبار سے لے کر وسطی ایشیاء اور مغربی چین تک مقبول ہے۔ 10 ویں اور 13 ویں صدی کی کھانوں کی کتابوں میں پیسٹریز کا حوالہ سن بوسک (یہ تلفظ اب بھی مصر، شام، اور لبنان میں رائج ہے)، سنبوسق یا سنبوساج کے نام سے دیا گیا ہے، اور یہ تمام الفاظ قرون وسطیٰ کے فارسی لفظ سان بوساگ کے عکاس ہیں، لیکن حقیقی طور پر اس کا نام سمسا تھا جو کہ وسطی ایشیاء کے تکونے اہراموں کے نام پر رکھا گیا۔"
مصری فلافل کی طرح سمسا بھی ہلکی پھلکی سفری غذا یا سنیک تھا۔
زمانہ ماضی کے آوارہ گرد اور مسافر قیمہ بھرے سمسا پکاتے تھے، انہیں الاﺅ میں بھونتے اور سفری سنیک کے طور پر اس کے ذائقے کا لطف اٹھاتے، اور طویل سفر کرکے یہ آج سموسے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
سفری سنیک سے لے کر چائے کے وقت تک، افطار کی میز کے بادشاہ کے ساتھ ساتھ زیادہ اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو لگ بھگ برصغیر کے ہر گھر کے ریفریجریٹرز میں موجود ہوتی ہے۔
تو اس کے بعد کیا ہوا تھا اور یہ پسندیدہ دیسی سنیک کس طرح قدیم دہلی میں ارتقاء سے گزرا؟
کہا جاتا ہے کہ یہ سنیک 14 ویں صدی کے شہنشاہ محمد تغلق کے شاہی باورچی خانے کے مینیو کا لازمی حصہ بن گیا تھا اور بادشاہ کی جانب سے اکثر اس کو پیاز، گھی اور گوشت کے ساتھ بنانے کی درخواست کی جاتی تھی۔
شاعر امیر خسرو نے تحریر کیا ہے کہ دہلی کا شاہی خاندان اس سنیک سے بہت زیادہ لطف اندوز ہوتا تھا، اور یہ روایت آج بھی دہلی سے لاہور اور کراچی سے ممبئی تک برقرار ہے۔
سموسے کی تاریخ کا حیرت انگیز و لذیذ سفر مجھے ابن بطوطہ کی سیاحت کے زمانے میں لے گیا جن کا سمبوسک (سموسے کا ایک اور نام) کے بارے میں ایک مشہور جملہ اس سنیک کی مثالی وضاحت کرتا ہے: "قیمے کو باداموں، پستوں، پیاز اور مصالحوں کے ساتھ پکا کر گندم کے ایک پتلے سے لفافے میں بھر کر گھی میں تلا جاتا اور تغلق کے شاہی محل میں پلاﺅ کے تیسرے دور سے قبل پیش کیا جاتا۔"
ابن بطوطہ کے اس جملے کے چند سو سال بعد ابو الفضل نے اپنے مقبول اکبرنامہ جسے آئین اکبری بھی کہا جاتا ہے میں سنبوسہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے "گندم کا پکوان قطب بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے شاہی گھرانے کو محبت ہے، اسے ہند کے عوام سن بوسہ کہتے ہیں اور ہم اسے سموسہ کہتے ہیں، مگر نام جو بھی ہو اس کا ذائقہ بے مثال ہے۔"
ہسپانوی زبان میں اس طرح کی پیسٹری کو ایمپاناڈاس کہا جاتا ہے اور ابتدا میں جب میں پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہوئی، تو جب بھی سموسے کی خواہش ستاتی، تو ایمپاناڈاس پر اکتفا کرتی، جسے سموسے کا سوتیلا بھائی بھی کہا جاسکتا ہے۔
جب میرا سموسہ بنانے کا وقت آیا تو میں نے شازلی آنٹی کی ترکیب استعمال کی اور اس کا نتیجہ زبردست رہا۔ اب یہ میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کررہا ہے۔
اجزاء (ایک درجن سموسوں کے لیے)
دو کپ آٹا
چار چائے کے چمچ تیل
12 سے 14 چائے کے چمچ پانی
ایک چائے کا چمچ اجوائن
نمک حسب ذائقہ
تلنے کے لیے تیل
آلو مصالحہ: درمیانے سائز کے تین آلوﺅں کو ابال لیں۔ ابلنے کے بعد حسب ذائقہ نمک، آدھا چائے کا چمچ زیرہ، چوتھائی چائے کا چمچ سرخ مرچ پسی ہوئی، ایک چائے کا چمچ کٹا ہوا دھنیا، چوتھائی چائے کا چمچ کٹی ہوئی سبز مرچیں، تلی ہوئی پیاز، آدھا چائے کا چمچ اجوائن، آدھا چائے کا چمچ پسا ہوا سوکھا دھنیا، ان سب کو ایک ساتھ ملا کر کچل لیں اور چار چائے کے چمچ تیل میں تیز آنچ پر کچھ منٹ کے لیے تل لیں۔
قیمہ مصالحہ: درمیانے سائز کی پیاز کا آدھا حصہ دو سے تین چائے کے چمچ تیل میں براﺅن کرلیں، جب ایسا ہوجائے تو اس میں آدھا کلو قیمہ، آدھا چائے کا چمچ زیرہ، آدھا چائے کا چمچ سرخ مرچ پاﺅڈر، آدھا چائے کا چمچ گرم مصالحہ، آدھا چائے کا چمچ ادرک و لہسن کا پیسٹ اور نمک حسب ذائقہ شامل کرلیں۔ پندرہ سے بیس منٹ تک درمیانی آنچ پر اسے پکائیں، جس کے بعد آنچ کو تیز کردیں اور اس دوران اسے پانچ منٹ یا اس وقت تک مسلسل ہلاتے رہے جب تک تیل گوشت سے الگ نہیں ہوجاتا۔
طریقہ کار
سموسے کے خول کے لیے تمام اجزاء کو آپس میں مکس کر دیں اور اس کے بعد آٹے میں گوندھ کر پیڑوں کی شکل دیں، اور گیلے کپڑے سے ڈھک کر ایک گھنٹے کے لیے کمرے کے عام درجہ حرارت میں رکھ دیں۔
اس کے بعد انہیں 6 مساوی پیڑوں کی شکل میں تقسیم کرکے 6 گول روٹیاں بنائیں اور آدھے گول کی شکل میں کاٹ لیں جبکہ روٹی کے ٹکڑوں کے سیدھے کناروں پر کچھ پانی لگائیں اور اسے موڑ کر بند کردیں۔
اب کون کی شکل کے سموسے کے اس خول کو آلو یا قیمے سے بھریں اور اس کے کون کے گول گھیر پر کچھ پانی لگا کر اس کے کونوں کو دبا کر سیل کردیں۔
اب سموسے کو گرم تیل (تیز آنچ) میں ڈال دیں اور آنچ کو سموسہ ڈالنے کے بعد ہلکا کردیں اور اس وقت اس آنچ پر پکائیں جب تک وہ گولڈن براﺅن نہ ہوجائے۔ اس کے بعد آنچ کو بڑھائیں اور سموسے کو کڑھائی سے نکال لیں، اس کا تیل چھان لیں اور پھر اس کا مزہ لیں۔
— تصاویر بشکریہ فواد احمد
مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں۔
لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔
انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔