پاکستان

الطاف حسین کے خلاف 20 مقدمات درج

متحدہ کےسربراہ پرسندھ کے10 شہروں میں اشتعال انگیزتقریر پرایف آئی آرزدرج کی گئیں،جن میں انسداددہشت گردی کی دفعات شامل ہیں
|

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف سندھ کے 10 شہروں میں 18 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں 2 مقدمات درج ہوئے۔

ڈان نیوز کے مطابق مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔

خیال رہے کہ 23 سال سے لندن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ایم کیو ایم کے سربراہ نے دو روز قبل پارٹی عہدیداروں اور ارکان اسمبلی سے خطاب میں فوج اور رینجرز کے حوالے سے مبینہ طور پر نازیبا زبان استعمال کی تھی۔

مقدمات میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

الطاف حسین کی اتوار کی شام کی گئی تقریر پر شدید ردعمل دیکھا جا رہا ہے کیونکہ مقدمات عام شہریوں نے درج کروائے ہیں۔

الطاف حسین کے خلاف جیکب آباد میں 4 ، دادو میں 3، حیدرآباد اور شکار پور میں 2، 2 جبکہ خیرپور، نوابشاہ، نوشہرہ فیروز، بدین ، روہڑی اور عمرکوٹ میں ایک ایک مقدمہ درج کیا گیا۔

مقدمات 153 پی پی سی کی دفعات کے تحت درج ہوئے۔

مقدمات شہریوں رجب شاہانی، طارق پہنور،علی حیدری کی مدعیت میں درج کیے گئے۔

تھانہ فورٹ میں مقدمہ عبد الوحید اور تھانہ مٹیاری میں محمد عثمان جوکھیو کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔

پہلا مقدمہ روہڑی تھانے میں شہری محمود خان کی مدعیت میں دفعہ 153 اور 124 کے تحت درج کیا گیا۔

دوسرا مقدمہ کندھراتھانےمیں شہری محمد ادریس کی مدعیت میں درج ہوا، جس کا اندراج دفعہ 153 اور 124 کے تحت کیا گیا۔

چمن اور پشین میں 2 مقدمات کا اندراج کروایا گیا۔

مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں

درخواست آفتاب احمد ورک کی جانب سے جمع کرائی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ الطاف حسین کی تقریر خانہ جنگی کرانے کی سازش ہے۔

رابطہ کمیٹی کی مذمت

دوسری جانب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے جیکب آباد، خیرپور، نوشہرو فیروز اور بینظیر آباد میں الطاف حسین کے خلاف مقدمات درج کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

اراکین رابطہ کمیٹی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ کے قائد پر مقدمات رینجرز کی زیادتیوں کے حقائق بیان کرنے پر درج کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نہ تو ایم کیو ایم کی قیادت کو ڈرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی مظلوموں کے حقوق کی جدوجہد سے روکا جا سکتا ہے۔

رابطہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف جس قسم کے رویہ کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں : نائن زیرو پر چھاپہ: رینجرز حقائق جاری کرے گی

خیال رہے کہ 2 دن پہلے رینجرز ذرائع سے ایک خبر سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ رینجرز نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر چھاپے سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس خبر کے آنے کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کارکنان سے خطاب کیا کہ فوج کے ضابطہ اخلاق میں کہیں یہ لکھا ہے کہ فوج یا اس کے نیم فوجی ادارے رینجرز وغیرہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی چارج شیٹ جاری کریں؟ رینجرز ایک سیکورٹی فورس ہے یا سیاسی پارٹی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف فوج سے گندے انڈوں کو نکالیں اور ان کے خلاف ایکشن لیں

الطاف حسین نے الزام عائد کیا تھا کہ رینجرز نائن زیرو پر چھاپے کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہی ہے، حقائق کو توڑنا، مروڑنا ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اور پوری رینجرز کا کام ہے، اس وقت ڈی جی رینجرز وائسرائے کا کردار ادا کر رہے ہیں اور وزیر اعظم نوازشریف کے ذاتی ملازم بن کر اپنے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ایم کیو ایم کے قائد کا دعویٰ تھا کہ ڈی جی رینجرز بلال اکبرباربار اپنے حلف کی خلاف ورزی کرچکے ہیں اور اب وہ محض دکھاوے کے میجر جنرل ہیں ۔

انہوں نے کہا تھا کہ میجر جنرل بلال اکبر نے اپنے حلف کو توڑا ہے ، اب وہ فوجی نہیں رہے ، بہتر ہے کہ وہ خود اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں اور دو سال انتظار کرنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنا کر اس کے صدر بن جائیں اور رینجرز کے کرنل طاہر کو جنرل سیکریٹری بنا دیں۔

الطاف حسین نے کہا تھا کہ رینجرز کے میجر جنرل ملک کے تحفظ کے لیے بنائے جاتے ہیں یا غنڈہ گردی کے لیے؟ بلال اکبر ڈی جی رینجرز ہے یا بد معاشوں کا ڈان ہے۔

متحدہ ک سربراہ نے کہا تھا کہ فوج کے کچھ لوگ ایسے ہیں جو پوری فوج کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ، ایسے ہی لوگوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں نہ صرف نہتے بنگالیوں کو نشانہ بنایا بلکہ ایک لاکھ سے زائد بنگالی بچیوں کی عصمت دری کرکے انہیں حاملہ کیا۔

الطاف حسین نے الزام عائد کیا تھا کہ کہ اس حالیہ آپریشن میں ایم کیو ایم کے 52 کارکنان ماورائے عدالت قتل کئے جا چکے ہیں، 4 ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن میں سے سیکڑوں کارکنان آج بھی جیلوں میں ہیں، آپریشن کے دوران 22 کارکنان لاپتہ کیے گئے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر نہ رہا تو صبر و ضبط سے کام لینے والے (ایم کیو ایم کے کارکن) باغی بن جائیں گے اور کراچی صومالیہ بن جائے گا۔