'ماں میں جنت میں خیریت سے ہوں'
ماں میں تجھے کیسے سلام کروں۔ مجھ میں تو اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ تجھے سلام کرنے میں چند قیمتی ترین لمحات گزار دوں۔ میں تو بس بنا کچھ سوچے سمجھے، تجھے لپٹ جانا چاہتا ہوں۔ تجھے لپٹ کر بنا کچھ کہے بنا کچھ سنے، تیرے بازوؤں میں چھپ جانا چاہتا ہوں، تیرا بوسہ اپنے گالوں اور ماتھے پر محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ ماں یہاں جنت میں سب کچھ ہے۔ اگر نہیں ہے تو بس میری ماں۔
ماں، میں یہاں جنت میں خیریت سے ہوں۔ بہت خوش رہتا ہوں جب تک مجھے تیری یاد نہیں آتی۔ تیری یاد آتے ہی سب کچھ پھیکا سا لگنے لگتا ہے۔ ہر طرف بس تیری ہی شکل دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تو مجھے زور زور سے پکار رہی ہے اور میں تیری آواز سنتے ہوئے بھی تجھے لپٹ نہیں سکتا۔
آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے کے بعد جنت میں پہلی بار تیرے بغیر روزے رکھے۔ تیرے بغیر سحر اور افطار کی۔ تجھ بِن روزے تو گزار لیے، مگر عید نہیں گزار پاؤں گا ماں۔ اسی لیے مجبور ہو کر تجھے خط لکھ رہا ہوں۔
ماں، جنت میں ہر سحری کے دوران مجھے تیرے ہاتھ کے بنے ہوئے پراٹھے یاد آتے ہیں۔ میں کیسے بھولوں جب تو زبردستی پراٹھا چائے میں ڈبو ڈبو کر اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ مسجد سے اذان کی آواز آنے پر تو اپنا کھانا چھوڑ کر پانی کا گلاس میرے منہ سے لگا دیتی تھی اور تیرا کھانا وہیں پڑا رہ جاتا تھا۔
میں کیسے بھولوں ماں جب سخت گرمیوں کے روزوں میں تو ہمیں بجلی جانے پر اپنا گیلا دوپٹہ دے کر سلایا کرتی تھی اور اخبار کے ذریعے ہم بہن بھائیوں کو ہوا دیا کرتی تھی۔
افطاری بناتے وقت شدید گرمی میں تو میری ساری فرمائشیں پوری کرتی تھی۔ انڈے والے پکوڑے، سکنجویں، چاٹ اور دہی بھلے، مجھے کیسے نا یاد آئیں ماں۔
رمضان کے آخری دنوں میں سب گھر والوں کے ساتھ شاپنگ پر جانا بھی بہت مِس کرتا ہوں ماں۔ نماز پڑھنے کے لیے شلوار کرتا اور پینٹ شرٹ کی خریداری، سب یادیں مجھے بہت ستاتی ہیں۔ ابا کے پیسے کم پڑ جانے پر تو اپنی بچت میں سے جوتے لے کر دیتی تھی اور وہ بھی کالے رنگ کے، تاکہ اسکول کے لیے بھی کام آسکیں۔ سب کچھ بہت یاد آتا ہے ماں۔
پچھلی عید پر جب تو نے میری ضِد پوری کرتے ہوئے مجھے سفید جوگرز لے کر دیے تھے، وہ آج بھی یاد ہیں مجھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب عید کے دن صبح سویرے اٹھ کر تو نے میرا سفید شلوار سوٹ بجلی نا ہونے کی وجہ سے اِستری کو چولہے کے ذریعے گرم کرکے استری کیا تھا اور اس دوران تیرا ہاتھ بھی جل گیا تھا۔ میرے پوچھنے پر تو نے کہا تھا کہ چُھری لگ گئی ہے۔
عید کی نماز پڑھ کر واپس آنے پر تجھے لپٹنا اور تیرا میرا ماتھا چومنا، کیسے بھولا دوں ماں۔ عید کے دن یہاں کوئی بھی نہیں جو مجھے تیرے ہاتھ کی بنی ہوئی دودھ والی سویاں اپنے ہاتھوں سے کھلائے۔ یہاں کوئی نہیں جو مجھے دس دس کے نوٹ دے اور کہے جائو اور محلے کے بچوں کے ساتھ جھولے لو۔
عید پر سب کچھ ہے ماں، بس نہیں ہے تو میری ماں۔
یہاں کوئی بھی نہیں جو مجھے عید پر نانی کے گھر لے جائے اور وہاں جا کر ہم سارے کزنز ملنے والی عیدی سے ویڈیو گیمز کھیلیں، اور برابر والی گلی سے آلو چھولے اور رنگ برنگا لچھا کھائیں۔
ماں۔ مجھے پتہ ہے کہ میرا خط پڑھتے ہوئے تیرے آنسو برستی بارش کی طرح ٹپک رہے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ تیرے دل پر اس وقت کیا گزر رہی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ تیرا بس نہیں چل رہا اور تو فوراً میرے پاس آجائے۔
ماں، آج عید ہے اور تو میرا خط پڑھ کر رو رہی ہے۔ نہ رو ماں، میری قسمت میں ظالم دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونا ہی لکھا تھا۔ کیا ہوا جو آج میں تیرے پاس نہیں۔ میرا چھوٹا بھائی تو ہے جو پیٹ میں درد کا بہانہ بنا کر 16 دسمبر کو اسکول نہیں گیا تھا۔
ماں، تجھے میں رلانا تو نہیں چاہتا، مگر میں مجبور ہوں۔ اگر عید نہ ہوتی تو میں یہ خط نہ لکھتا۔
ماں، اب مجھ سے اور نہیں لکھا جا رہا۔ میرے جملے میرے جذبات کو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہیں۔ میری بے بسی بس تجھے یاد کر کر کے مجھے رلا رہی ہے۔
ماں، اپنا خیال رکھنا اور چھوٹے بھائی کو اپنے بازوؤں میں لے کر میرے حصّے کا پیار کرنا۔ میں سمجھوں گا میری ماں نے ہر عید کی طرح میرے چہرے پر بوسہ دیا اور لمبی عمر کی دعائیں دیں۔
فقط آپ کا شہید بیٹا
احمد
کلاس ہشتم
آرمی پبلک سکول، پشاور
بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@
nasim.naveed@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔