سزا نہیں، اصلاح
چھٹی صدی قبلِ مسیح میں یونانی فلسفی ایناکارسز نے سولون کے ساتھ ایک تحریری قانونی نظام کے امکانات پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا: "قانون مکڑی کے جالوں کی طرح ہوتے ہیں؛ یہ صرف غریبوں اور کمزوروں کو پکڑیں گے، مگر امیر اور طاقتور لوگ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں۔"
ایسا ہی تھا، اور ایسا ہی ہے۔
کس نے سوچا تھا کہ دنیا میں ایسے بھی ملک ہوں گے، جو ڈھائی ہزار سال بعد بھی اسی مسئلے میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔
کسی بھی دن دوپہر کے وقت پاکستان کے کسی بھی شہر میں مجسٹریٹ کے کورٹ میں داخل ہوں، اور آپ کو درجنوں لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے نظر آئیں گے، جو کورٹ کی جانب سے نمٹائے جانے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کا جرم وہی ہے جو روزانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے الگ تھلگ کونوں میں اور کئی فارم ہاؤسز کے اندر ہوتا ہے، یعنی نشے کا استعمال۔
کچھ لوگوں 3 ماہ کے لیے جیل بھیجا جائے گا، کچھ کو 5، اور کچھ کو 7 ماہ سے بھی زیادہ عرصے کے لیے۔ کبھی کبھی ان میں سے چند پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، جو چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتا، اور جسے نہ چکا پانے کی بناء پر جیل میں ان کا دورانیہ مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ لوگ ریاستی خزانے پر بوجھ بنتے ہیں، اور ان کے لیے وقف بیرکوں میں کئی انتہاپسندوں کو رکھا جا سکتا ہے۔
ٹالسٹائی نے لکھا تھا: "تمام خوشحال گھرانے ایک سے ہوتے ہیں، جبکہ تمام بدحال گھرانے الگ الگ طرح سے بدحال ہوتے ہیں۔" اس کے برعکس میں جب بھی ان بدحال قیدیوں کو دیکھتا ہوں، تو مجھے ان میں بہت سی چیزیں ایک جیسی لگتی ہیں۔ غربت، ٹوٹ پھوٹ کے شکار خاندان، واجبی یا صفر تعلیم، اور شدید پریشانی۔ بہت کم لوگ ہی ان زنجیروں سے خود کو چھڑا پاتے ہیں۔ دوسرے لوگ سکون چاہتے ہیں، پھر چاہے وہ نشے کی عادت میں ہی ملے۔
ان کے بیانات ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، ان کے حالات ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، اور ان کی سزا زیادہ ہوتی ہے۔ زندگی کے 7 ماہ سلاخوں کے پیچھے صرف ایک ایسا نشہ استعمال کرنے کے لیے جو اب دنیا کے زیادہ تر ممالک میں قانونی قرار دیا جا چکا ہے۔
نہیں، میں انسدادِ منشیات ایکٹ 1997 کی شق 9A کے تحت منشیات رکھنے کے جرم میں 2 سال تک کی قید کے خلاف نہیں ہوں۔ میں صرف ہمارے نظامِ انصاف کے دوغلے پن کے خلاف ہوں، جس میں غریبوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سزا ملتی ہے، جبکہ امیر لوگ قتل اور فراڈ کر کے بھی بچ نکلتے ہیں۔
اس طرح کے حالات میں عدل و انصاف کی باتیں بے مقصد، اور ترقی کی بحثیں بے فائدہ اور ظاہری ہیں۔
پاکستان کے حالات پر اس سے زیادہ برا تبصرہ کوئی نہیں ہوسکتا، جو مجھ سے ایک حاضرِ سروس ایڈیشنل آئی جی پولیس نے دو سال قبل کیا تھا: "میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مارگلہ روڈ اسلام آباد میں کون کون سے گھروں میں شراب کا کاروبار ہوتا ہے۔ لیکن اگر میں نے چھاپہ مارا، تو مجھے فوراً اعلیٰ حکام کے فون آنا شروع ہوجائیں گے کہ میں ان کے پسندیدہ شخصیات سے دور رہوں۔ اگر میں نے ان کی بات نہیں سنی تو میرا تبادلہ کردیا جائے گا، یا او ایس ڈی بنا دیا جائے گا۔ نہ جھکنے والے لوگوں کو سسٹم باہر نکال دیتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ سسٹم میں رہتے ہوئے کچھ کیا جائے، بجائے اس کے کہ باہر نکال دیے جانے پر کچھ بھی نہ کیا جائے۔"
تو پھر اگر نظام کی مکمل تبدیلی صرف ایک دیوانے کا خواب ہے، جسے صرف خیالوں کی دنیا میں رہنے والے لوگ ہی سچ سمجھتے ہیں، تو کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ اس ملک کے غریبوں کے لیے نرم سزاؤں کا مطالبہ کریں؟
کیوں نہ پھر مغربی ممالک کی طرح ہم بھی کمیونٹی سروس کے قوانین متعارف کروائیں؟ چھوٹے جرائم میں ملوث لوگوں سے سڑکیں صاف کروائی جا سکتی ہیں، ان سے بچوں کو منشیات کے خطرات سے آگاہ کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے، یا پھر حکومت کے پروگرامز میں رضاکار کے طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
اس سے دو چیزیں ہوں گی: پہلا یہ کہ ان افراد کو ہمارے جیلوں، جو جرائم کی فیکٹریوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، میں رکھے بغیر اصلاح کی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ انہیں جیلوں میں بند رکھنے پر اٹھنے والے اخراجات بھی کم ہو سکیں گے۔
ہمارا نظامِ انصاف مکمل طور پر سزا اور خوف کے گرد گھومتا ہے۔ اب اسے اصلاح کے گرد گھومنا چاہیے، خاص طور پر تب جب سزا تمام لوگوں کے لیے برابر نہیں ہوتی۔
بدر اقبال چوہدری وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کی بی پی پی یونیورسٹی سے قانون کی، اور ویلز کی کارڈف یونیورسٹی سے الیکٹرانکس اور کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور میگزینز میں لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔