مینا بازار کے رنگ
مینا بازار کے رنگ
جیسے ہی کراچی میں سخت گرمی کی لہر ختم ہوئی اور قدرت نے ہمیں ایک بار پھر ٹھنڈی سمندری ہوائیں عطا کیں، عید کی تیاریوں کی چہل پہل بھی بحال ہوگئی۔ مینا بازار کے دکانداروں کے لیے عید الفطر کا تہوار سال کا سب سے مصروف وقت ہوتا ہے۔
خبروں سے غائب رہنے کے باوجود مینا بازار کو آج بھی بڑی تعداد میں خریداروں کا ساتھ حاصل ہے جو کراچی کے کسی اور بازار کو مینا بازار پر ترجیح نہیں دیتے۔
مغلیہ دور میں نوروز کے جشن کے دوران خواتین کے لیے خصوصی بازار لگائے جاتے تھے۔ خواتین 5 سے 8 دنوں کے تہواروں کے لیے ان بازاروں کا رخ کرتی تھیں اور مردوں میں یہاں صرف مغل بادشاہوں اور شہزادوں کو آنے کی اجازت ہوتی تھی۔
حرم کی خواتین، راجپوتوں کی بیویوں اور بیٹیوں میں یہ مشہور تھا جو یہاں اسٹالز لگاتی تھیں اور مہنگی اشیا فروخت کرتی تھیں۔
اسی ورثے کی پیروی کرتے ہوئے کریم آباد میں واقع مینا بازار مقامی خواتین میں سب سے مشہور بازار سمجھا جاتا ہے۔ اس کا افتتاح 1974 میں کیا گیا تھا اور تب سے ہی یہ ثقافتی طور پر بھرپور اور خواتین کی توجہ کے مرکز بازاروں میں سے ایک ہے۔ زیورات، دوپٹے، چوڑیاں، میک اپ، کولہاپوری اور کھسے بازار کی کشش بڑھانے والی سب سے زیادہ مقبول اشیا ہیں۔
مغل دور کے مینا بازار کے برعکس کریم آباد کا یہ بازار خواتین کے لیے قیمتوں کے لحاظ سے معقول ہے جہاں درزیوں اور بیوٹی پارلرز کے وسیع ورائٹی موجود ہے۔ مگر یہ مہندی کے اسٹالز تھے جو مینا بازار کی مقبولیت کی وجہ بنے۔ دور دراز کے علاقوں جیسے ڈیفینس اور صدر سے بھی خواتین یہاں آتی ہیں۔ یہ تو آج بھی کہا جاتا ہے کہ شادی کی تیاریاں مینا بازار جائے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتیں۔
اپنے کیمرے کے ساتھ مینا بازار کا ایک چکر لگاتے ہوئے میں نے طرح طرح کی دکانیں دیکھیں۔ درجن بھر دکانوں سے بغیر خریداری اور مول تول کیے بغیر گزرنے پر کچھ دکاندار مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میں نے اپنی زندگی میں ایک ساتھ اتنے سارے رنگ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اپنی نظروں کو شوخ پیلے رنگ کا عادی بنانے میں مجھے تھوڑی دیر لگی۔
رنگ برنگے دوپٹوں، کھسوں، چنریوں، اور سپاٹ سینڈلز کی گلی۔
کونے میں ایک چھوٹی سی دکان سے گرم ہوائیں آ رہی تھیں۔ میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہاں دوپٹوں کو رنگا جا رہا تھا۔ نیچے تصویر میں موجود سرمئی قمیض میں ملبوس لڑکے نے مجھے بتایا کہ یہ دکان اس کے والد کی تھی، اور اپنے مرنے سے پہلے انہوں نے یہ دکان اپنے بھائی کے نام کردی اور اب وہ یہاں صرف ایک ملازم ہے۔
اور ایسے مقام پر جہاں کراچی والے صبح سے رات تک کام کرتے ہوں، وہاں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ چائے والا موجود نہ ہو؟
شبران ابراہیم مینا بازار میں پچھلے تین سالوں سے چائے فروخت کر رہا ہے۔ اسے چائے کے 22 کپ فروخت کرنے پر 100 روپے کمیشن ملتا ہے۔ جیسے ہی میں نے اس سے بات مکمل کی، اس نے خیرسگالی کے طور پر مجھے چائے کی پیشکش کی اور کہا ’باجی آپ تھک گئی ہوں گی کیمرا پکڑے ہوئے۔‘
میں اس جگہ پر کتابوں کی دکان دیکھ کر حیران رہ گئی۔ دکان کے اندر موجود سفید ٹی شرٹ پہنے ہوئے ایک شخص نے دکان سے باہر سر نکال کر مجھ سے پوچھا کہ میں کس قسم کی کتابوں میں دلچسپی رکھتی ہوں؟ صدیقی بک اسٹور میں ظہیر اپنے بھائی کے ساتھ کام کرتا ہے اور اس کی یہ دکان مینا بازار کی واحد کتابوں اور میگزین کی دکان ہے۔ ان کی دکان 20 سالوں سے مینا بازار میں موجود ہے، البتہ انہوں نے افسردگی سے بتایا کہ اب کوئی پڑھنے کا شوق نہیں رکھتا۔
کتابوں کی دکان سے باہر آتے ہی میں نے اسٹالز کی قطار دیکھی۔ یہاں سے لڑکیاں خالی ہاتھ واپس نہیں جاتیں۔ ان اسٹالز کے درمیان لمبے قد کا ایک لڑکا فہد اپنے اسٹال پر کھڑا تھا اور وہ اس جگہ پر 5 سالوں سے کام کر رہا ہے۔ اس نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ بے انتہا خوش ہے کہ ’تھوڑی حلال کمائی زیادہ حرام کمانے سے بہتر ہے۔‘ اس کا مزید کہنا تھا کہ عید کی وجہ سے اس کی فروخت عروج پر پہنچ گئی ہے۔
مینا بازار میں میرے سب سے پسندیدہ شخص امرود والے صابر چاچا رہے۔ صابر اور میں نے بازار کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ان کے یہاں گزارے ہوئے وقت کے بارے میں ایک لمبی گفتگو کی۔ وہ اس جگہ پر گزشتہ 35 سالوں سے موجود ہیں، اور یہاں کے نئے دکانداروں کے درمیان انہیں گھر جیسا احساس ہوتا ہے۔ دکاندار اکثر ان سے مشورہ کرتے ہیں، اور ان کی امرود کی ٹوکری بھی اٹھاتے ہیں۔
اس پرانے اور خستہ حال مینا بازار کو دیکھ کر مجھے کافی اداسی ہوئی۔ کراچی کے مہنگے اور ایئر کنڈیشنڈ شاپنگ مالز کے سامنے یہ مینا بازار اب خراب حال میں موجود ہے۔ برانڈز نے ہمیں چیزوں کی تاریخ اور روح سے ناواقف کر دیا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
منال خان فوٹوگرافر ہیں، اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ میں جرنلزم کی طالبہ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ManalKhan07@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔