نقطہ نظر

جوگندر ناتھ منڈل: اچھوت اچھوت ہی رہا

قائد اعظم چاہتے تھے کہ جب وہ گورنر جنرل کا حلف اٹھائیں، تو اجلاس کی صدارت اچھوت اقلیتی رکن اسمبلی جوگندر ناتھ منڈل کریں۔

جوگندر ناتھ منڈل ایک ایسی شخصیت تھے جن کا انتخاب جناح صاحب نے تقسیمِ ہند سے قبل بھی مشترکہ انڈیا میں بحیثیتِ وزیر مسلم لیگ کی جانب سے کیا تھا اور وہ مشترکہ ہندوستان کے صوبے بنگال میں وزیرِ قانون تھے۔ تقسیم کے بعد 10 اگست کو جب جناح صاحب نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا، تو آئین ساز اسمبلی کے اس اجلاس کی صدارت کا اعزاز بھی جوگندر ناتھ منڈل کے حصے میں آیا۔

جوگندر ناتھ کا تعلق ہندو مذہب کے اس طبقے سے تھا جسے اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے استاد، نامور محقق و مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تقسیمِ ہند کے ایک طویل عرصے بعد انہوں نے اپنے لیے لفظ ”دَلِت“ کا انتخاب کیا۔ گاندھی جی نے اچھوتوں کو "ہریجن" کا لقب دیا تھا لیکن وہ اس نام کو قبول کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے۔

مشترکہ ہندوستان کے معروف اچھوت رہنما ڈاکٹر امبیدکر کا خیال تھا کہ گاندھی جی ہریجن کا لقب دے کر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اچھوتوں کو ہندو مذہب میں شامل رکھا جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ گاندھی جی اچھوتوں سے دھوکہ کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے 3,000 ساتھیوں سمیت بدھ مذہب اختیار کیا۔

تقسیم سے قبل مشترکہ ہندوستان اور اس کے بعد انڈیا پاکستان میں بسنے والے دلِتوں کی معاشی اور سماجی صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی لیکن ایک طویل عرصے بعد انہیں اپنے حقوق کا ادراک بھی ہوا ہے اور وہ اسے منوانے کے لیے جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔ بہرحال ہم بات کر رہے تھے جناب منڈل کی جو پاکستان کے پہلے وزیرِ قانون بنے۔

10 اگست 1947 کو جب قائدِ اعظم نے گورنر جنرل کا حلف اٹھانا تھا، تو جناح صاحب کی خواہش تھی کہ اس اجلاس کی صدارت ایک اچھوت اقلیتی رکن اسمبلی جوگندر ناتھ منڈل کریں۔ ان کے اس فیصلے سے اس بات کا اظہار ہوتا تھا کہ جناح صاحب نئی مملکت میں اقلیتوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔

لیاقت علی خان نے اجلاس کی صدارت کے لیے جوگندر ناتھ کا نام تجویز کیا، جبکہ اس کی تائید خواجہ ناظم الدین نے کی۔ جوگندر ناتھ نے بحیثیت صدر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ جناح صاحب کی قیادت میں ملک مزید ترقی کرے گا۔ احمد سلیم اپنی کتاب ”پاکستان اور اقلیتیں“ کے صفحہ نمبر 104 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں:

”اقلیتی فرقے کے ارکان میں سے صدر کا انتخاب نئی مملکت کی روشن خیالی کا غماز اور ایک اچھا شگون ہے۔ پاکستان کا وجود بجائے خود برصغیر کی ایک اقلیت کے پیہم اصرار اور مساعی کی بدولت عمل میں آیا۔ میں یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نہ صرف پاکستان اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا کے باشندوں کی نظریں پاکستان کی مجلس دستور ساز پر لگی ہوئی ہیں۔

"مسلمان اپنے لیے الگ مملکت کے طالب تھے۔ اب دنیا یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ مسلمان اقلیتی فرقے کے ساتھ دریا دلی کے ساتھ پیش آتے ہیں کہ نہیں۔ مسلم لیگ کے لیڈروں اور خاص طور پر قائدِ اعظم نے اقلیتوں کو یقین دلایا کہ پاکستان کی اقلیتوں کے ساتھ نہ صرف انصاف اور رواداری بلکہ فراخ دلانہ سلوک روا رکھا جائے گا۔ اقلیتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ مملکت کے وفادار رہیں اور ذمہ داری کے ساتھ کام کریں۔“

1946 میں ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران مقامی نمائندوں پر مشتمل جو عبوری کابینہ مقرر کی گئی تھی، اس کے لیے مسلم لیگ کی جانب سے جوگندر ناتھ منڈل کو نامزد کیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی بات تھی کہ ایک جماعت جو مسلمانوں کے حقوق کی بات کر رہی ہے، وہ کابینہ کے لیے ایک ہندو اچھوت کو اپنا وزیر نامزد کرے۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ کانگریس کی جانب سے بھی وزارت کے لیے مولانا ابو الکلام آزاد کو نامزد کیا گیا تھا۔ زاہد چوہدری اپنی کتاب ”پاکستان کی سیاسی تاریخ (جِلد 2) کے صفحہ نمبر 47 پر لکھتے ہیں:

”لیگ (مسلم لیگ) کی طرف سے اچھوت کو شامل کرنے پر کانگریسی رہنماؤں کا جو ردِ عمل تھا سو تھا، لندن میں لیبر حکومت کو اس بات کی تشویش لاحق ہوگئی کہ کہیں کانگریس ناراض نہ ہوجائے اور حکومت سے دستبردار نہ ہوجائے۔ چنانچہ 14 اکتوبر کو لارڈ پیتھک لارنس نے (گورنر جنرل) لارڈ ویول کو لکھا: ”ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا ہو سکتا ہے کہ کانگریس عبوری حکومت میں شامل رہنے سے اس بنا پر انکار کر دے کہ اچھوت کو مسلم لیگ کا نمائندہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔“ اور جب 15 اکتوبر کو ویول نے لیگ کے پانچ نام شاہِ برطانیہ کی منظوری حاصل کرنے کے لیے لندن روانہ کیے تو اسی روز پیتھک لارنس نے جواب میں لکھا ”مجھے افسوس ہے کہ میں واقعی یہ سمجھتا ہوں کہ شاہی منظوری حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہ ہوگا جب تک آپ یہ نام نہرو پر ظاہر نہ کر دیں۔ کانگریس کو اچھوت کی شمولیت پر سخت اعتراض ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ حکومت سے دستبردار بھی ہوسکتی ہے۔ اس مرحلے پر شاہ برطانیہ کو ملوث کرنا مناسب نہ ہوگا۔“

مارچ 1949 میں جوگندر ناتھ منڈل نے قرارداد مقاصد کی حمایت کی۔ (یہ وہی قرارداد مقاصد ہے جو آج تک پاکستان کی سیاست کا موضوع ہے۔ ترقی پسندوں کا خیال یہ ہے کہ اس قرارداد کے ذریعے جناح صاحب کے "سیکولر پاکستان" کو ایک مذہبی ریاست کا درجہ دے دیا گیا)۔

اچھوتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کے حق کو منوا کر انہوں نے ہندو اقلیت کے اثر کو کم کرنے کی کوشش میں بھی حکومت کا ساتھ دیا۔ اپنی ان وزارتی خدمات کے صلے میں وہ 1950 میں اپنے وزارتی عہدے سے فارغ کر دیے گئے، جس کا انہیں بے حد رنج ہوا۔ رنج ہونا بھی چاہیے تھا۔ سندھی میں ایک مثل مشہور ہے ”جنہن لائے موئا سیں، سے کاندھی نہ تھِیا“ (جن کے لیے مرے تھے، انہوں نے کاندھا تک نہ دیا)۔

قیامِ پاکستان کے بعد نوکرِ شاہی کی گرفت جس طرح اقتدار کے ایوانوں میں زور پکڑتی جا رہی تھی، اس کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ہندوؤں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ضروری تھا۔ تاثر یہ دیا جاتا تھا کہ یہ اکثریتی مسلمانوں کی خواہش ہے کہ غیر مسلموں کے کردار کو محدود کیا جائے کیونکہ ان کی نئی مملکت سے وفاداری مشکوک ہے۔

یہ مفاد پرست نوکر شاہی کی جانب سے غیر مسلموں اور خصوصاً ہندوؤں کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ حکومتِ وقت کی حمایت اور تائید سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور ان کے لیے پاکستان میں اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔

کتنے معصوم تھے جوگندر ناتھ منڈل۔ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ کچھ عرصے بعد انہیں پاکستان چھوڑنا پڑے گا۔ دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں جب جناح صاحب کو قائدِ اعظم کا لقب دینے کی قرارداد پیش کی گئی، تو تقریباً تمام ہی اقلیتی ارکان نے اس کی مخالفت کی لیکن جوگندر ناتھ منڈل نے اس کی حمایت کی۔ اور جب جناح کا انتقال ہوا تو انہوں نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ:

”تقدیر کے ظالم ہاتھوں نے قائدِ اعظم کو اس وقت ہم سے چھین لیا جب ان کی اشد ضرورت تھی۔“

جناح صاحب کے انتقال کے کچھ عرصے بعد ہی جوگندر ناتھ منڈل پاکستان سے دوبارہ انڈیا منتقل ہوگئے۔ اس کی کیا وجوہات تھیں؟ اس حوالے سے احمد سلیم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

”پاکستان کے پہلے وزیر قانون اور اچھوت رہنما جوگندر ناتھ منڈل نے قدم قدم پر حکومت پاکستان کی تائید و حمایت کی تھی۔ انہیں کچلے ہوئے عوام کا ہیرو ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ 1940 سے جب وہ کلکتہ کارپوریشن میں منتخب ہوئے، وہ مسلم عوام کا ساتھ دے رہے تھے۔ انہوں نے اے کے فضل الحق وزارت اور خواجہ ناظم الدین وزارت (45-1943) کے ساتھ تعاون کیا اور (1946-47) میں مسلم لیگ کے اس وقت کام آئے جب قائدِ اعظم کو متحدہ ہندوستان کی عبوری وزارت کے لیے اپنے پانچ وزیروں کے نام درکار تھے۔

قائدِ اعظم منڈل کو مسلم لیگ کی جانب سے وزیر نامزد کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے قائدِ اعظم کی یہ پیشکش قبول کر کے قائد کی اس حکمتِ عملی کو کامیاب بنایا کہ اگر کانگریس ابو الکلام کو ایک مسلمان وزیر کے طور پر نامزد کر سکتی ہے تو مسلم لیگ بھی ایک اچھوت کو اپنا وزیر مقرر کر سکتی ہے۔

پھر 3 جون 1947 کا اعلان ہوا تو ضلع سلہٹ کے باشندوں کو یہ طے کرنا تھا کہ آیا ان کا ضلع آسام میں شامل رہے گا یا پاکستان کا جزو بنے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے ووٹوں کی تعداد میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا، اور اچھوت اقوام کے کافی ووٹ تھے جو استصواب کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔ قائدِ اعظم کی ہدایت پر مسٹر منڈل استصواب کے سلسلے میں سلہٹ پہنچے اور فیصلہ پاکستان کے حق میں کر وا کر لوٹے۔“

جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی سیاست میں بیورو کریسی کا عمل دخل بہت زیادہ تھا۔ وہ کسی بھی ایسے شخص کو بلا لحاظِ مذہب و ملت برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی جس کے سامنے اسے جوابدہ ہونا پڑے۔ اس لیے انہوں نے ایسے تمام افراد کے پَر مختلف حیلوں بہانوں سے کترنا شروع کیے۔

جوگندر ناتھ منڈل بھی اس کا شکار ہوئے۔ غالباً وہ قیامِ پاکستان کی کابینہ کے واحد وزیر تھے جنہیں ایک بیورو کریٹ نے اس حد تک مجبور کیا کہ وہ نہ صرف وزارت چھوڑنے پر تیار ہوئے، بلکہ ملک ہی چھوڑ گئے۔ اس حوالے سے پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ”رودادِ چمن“ میں لکھتے ہیں کہ:

”چودھری محمد علی مرحوم و مغفور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انگریزی کی ملازمت میں بسر کرنے کے بعد اب دہلی سے پاکستان تشریف لے آئے تھے اور آتے ہی بحیثیتِ سیکریٹری جنرل مرکز پاکستان میں نوکر شاہی کے معمار اور امام مانے جانے لگے۔ ابھی وہ کابینہ میں محض سیکریٹری تھے (ہنوز وہ سیکریٹری خزانہ، وزیرِ خزانہ، نہ وزیرِ اعظم بنے تھے، ان کی ترقی درجات کا اہتمام بعد میں ہوتا رہا)۔ ان پر(بقول خود) یکایک یہ انکشاف ہوا کہ منڈل کی ملک سے وفاداری مشکوک ہے، جس کے معنیٰ یہ ہوتے تھے کہ چودھری صاحب مرحوم مردم شناس اور وفاداری پرکھنے کے معاملے میں قائد سے بھی زیادہ تیز نظر رکھتے تھے۔

"چنانچہ انہوں نے وزیر منڈل سے کابینہ کے اہم کاغذات چھپانے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ بات منڈل سے برداشت نہ ہو سکی۔ وہ خود دار اور انا پرست ہندو سیاست دان تھا۔ تحریک آزادی کے دوران بڑی قربانیاں دے کر اور شدید مشقتیں برداشت کر کے خصوصاً آڑے وقت میں اپنی قوم کے خلاف ہمارے قائد کا ساتھ دے کر وزارت کے اس منصب تک پہنچا تھا، اب وہ کیونکر یہ توہین برداشت کر سکتا تھا کہ کابینہ کا اپنا ملازم اس کے سیاسی کریکٹر اور وفاداریوں کے بارے میں جج بن کر بیٹھے؟ وہ فوراً وزارت چھوڑ چھاڑ کر واپس کلکتہ چلا گیا اور بقیہ عمر وہاں ہندوؤں کے طعنے برداشت کرتا رہا۔“

جوگندر ناتھ منڈل کی قربانیاں، مسلمانوں سے محبت، مسلم لیگ سے وفاداری سب اپنی جگہ، لیکن اس عظیم شخص کے ساتھ ایک بیوروکریٹ نے جو کچھ کیا، وہ اب غالباً تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔

لیکن ہم سمجھتے ہیں اب بھی پاکستان میں بے شمار جوگندر موجود ہیں جو اس وطن سے اپنی دوستی کا ثبوت دیتے دیتے تھک گئے ہیں لیکن کوئی بھی اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

کیا اچھوتوں کو ماننے کے لیے اور اقلیتوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے لیے پاکستان میں ایک اور جناح کی ضرورت ہے؟

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔